نقطہ نظر

خان صاحب! آپ بھی کمال کرتے ہیں

جو کشتیاں آپ ڈی چوک پر جلا بیٹھے تھے، انہی سوختہ کشتیوں کا جنازہ اپنے کاندھوں پر اٹھائے پارلیمنٹ واپس لوٹ آئے۔

خان صاحب! خان صاحب! خان صاحب !! کیا کرتے ہیں آپ؟ ہمیشہ غلط اندازے لگا بیٹھتے ہیں! انہی اندازوں کی بنیاد پر غلط وقت پر غلط بات اور کام کرجاتے ہیں، پھر بھگتنا آپ کے چاہنے والوں کو پڑتا ہے۔

آپ جناب خود تو چہرے پر خودپسندی کا سیاہ چشمہ چڑھائے ارد گرد سے غافل ہو بیٹھتے ہیں اور صفائیاں دینے کو بیچارے آپ کے مرید بازاروں، دفتروں، اور سوشل میڈیا پر سرگرم ہوجاتے ہیں۔ پی ٹی وی حملہ سین میں بھی یہی ہوا۔ امید آپ کو کچھ اور تھی، ہوا کچھ اور۔ الٹا لینے کے دینے پڑ گئے۔ رہی سہی کسر اس لیک شدہ ٹیپ نے پوری کردی۔

سول نافرمانی کی چوہیا تو یاد ہی ہوگی خان صاحب آپ کو، جسے آپ نے بنی گالہ کے گرم پانیوں میں ڈبو کر مار ڈالا اور آپ کے چاہنے والے مونہہ تکتے گئے۔ پر داد دینی پڑے گی ان کی وارفتگی کی۔ ایسی محبت ہے آپ سے ان کم نصیبوں کو کہ جس تبدیلی کی خاطر اپنا گھر بار، روزگار و کاروبار سب چھوڑ چھاڑ کر مہینوں سے دھرنا ڈالے بیٹھے رہے، اتنی بڑی وعدہ خلافی کے بعد چوں تک نہ بولے بلکہ وہی صفائیاں تلافیاں۔

کیا ہی اچھا ہوتا اگر سیاسی تربیت کے دوران آپ کے استاد گرامی آپ کو پہلے تولو، پھر بولو کا سبق بھی پڑھاتے۔ اب دیکھیں نہ کیا ہوا۔ جس پارلیمنٹ کو آپ نے لتاڑا، پھٹکارا، جعلی قرار دیا، آپہنچی وہیں پر خاک کے مصداق اسی پارلیمنٹ میں واپس آئے اور جن اراکینِ پارلیمنٹ کا تمسخر اڑاتے رہے، انہی کے بیچ آکر بیٹھ گئے۔ جو کشتیاں کچھ ماہ پہلے آپ جلا کر ڈی چوک پر دھرنا دیے بیٹھے تھے، انہی سوختہ کشتیوں کا جنازہ اپنے کاندھوں پر اٹھائے پارلیمنٹ واپس لوٹ آئے۔

پڑھیے: تحریک انصاف کا اسمبلیوں میں واپسی کا اعلان

جو سلوک خان صاحب کے ساتھ پارلیمنٹ میں روا رکھا گیا، جو لہجہ استعمال کیا گیا، وہ یقیناً قابل مذمّت ہے۔ لیکن کیا کریں؟ وہ کہتے ہیں نا، سو سنار کی ایک لوہار کی، تو آج ان کے ہاتھ سنہرا موقع آیا تھا دل کے پھپھولے پھوڑنے کا، تو انہوں نے موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔

اب شکایت کس مونہہ سے کر رہے ہیں جناب، آپ نے بھی تو ہر لحاظ سے اپنے مخالفین کا تمسخر بنایا تھا۔ کرکٹ کے کھیل میں بھی sledging کا حق دونوں ٹیموں کو ہوتا ہے، اب اننگ دوسری ٹیم کی ہے تو برداشت کریں۔

آپ کی یادداشت شاید کمزور ہوگئی ہو پر ہمیں سب ہے یاد ذرا ذرا... وہ سر پہ دوپٹہ ڈال کر اترانا، شلواریں گیلی کروانا، اوئے شوئے للکارنا، سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا۔ جو کچھ آپ کے ساتھ پارلیمنٹ میں ہوا وہ 127 دنوں کا آئینہ ہی تو ہے۔

خان صاحب آپ تو ٹھہرے پردیسی، ساتھ کیا نبھائیں گے؟ صبح پہلی گاڑی سے بنی گالہ لوٹ جائیں گے، پیچھے رہ جائیں گے تو آپ کے حمایتی جو آپ کی ہر جا و بیجا بات پر حمایت کرتے ہیں اور ہر بار آپ کی صفائی میں خود پر ذلّت کے وار سہتے ہیں، پر آپ باز نہیں آتے۔

ذرا سوچیں کراچی میں ایک بار پھر آپ ڈی چوک والے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ وہی گستاخی بھرے تمسخرانہ بیانات، وہی دھونس دھڑلے والا انداز۔ کراچی کو جارحیت پسندی سے پاک کرنے کے دعوے کر رہے ہیں، ذرا لگے ہاتھوں یہ بھی بتاتے جائیے کیا خیبر پختونخواہ میں امن قائم ہوگیا؟ کیا وہاں سے شر پسند عناصر مار بھگا دیے آپ کی حکومت نے؟ اگر نہیں تو کراچی میں آپ کون سی دودھ کی نہریں نکال لیں گے جہاں کے زمینی حقائق پختونخواہ سے بھی زیادہ پیچیدہ ہیں۔ دعوے ایسے کریں جن کو پورا کرنے کی آپ میں سکت ہوا۔ اور ہاں، ابھی تو کے پی کے میں ایک ارب درخت بھی لگنا باقی ہیں۔

مزید پڑھیے: جاوید ہاشمی نے ایک نیا پنڈوراباکس کھول دیا

لوگ بھی ایسے بچے نہیں کہ یہ نہ سمجھ پائیں کہ اتفاق رائے صرف جوڈیشل کمیشن پر نہیں ہوا، بلکہ ساتھ میں کچھ اور بھی مک مکا ہوا ہے، ورنہ کچھ ماہ پہلے کراچی میں قدم رنجائی کے موقع پر انداز و بیان کچھ اور تھا اور آج کچھ اور ہے۔

تبدیلی کے متوالے ملک تو نہیں بدل سکے، البتہ والدین کی دی ہوئی تربیت کو آپ کے پڑھائے ہوئے سبق سے بدل بیٹھے ہیں اور اس کا مظاہرہ سوشل اور پبلک پلیٹ فارم پر خوب کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اب کراچی میں بھی یہی کھیل کھیل کر رہی سہی عزت خاک میں نہ ملائیں۔ کہیں یہاں بھی آپ کو یوٹرن نہ لینا پڑ جائے۔

مانا کہ سیاست مصلحت اور مفاہمت کا کھیل ہے پر سرکار اس قدر بڑے بول نہ بولا کریں کہ جب مصلحت و مفاہمت کا وقت آئے، تو آپ کو اپنے پچھلے بیانات واپس لینے پڑیں اور آپ کو پھر وضاحتیں پیش کرنی پڑیں، کیونکہ آپ چاہیں جتنی وضاحتیں لگا لیں سمجھنے والے قیامت کی سمجھ رکھتے ہیں۔

ناہید اسرار

ناہید اسرار فری لانس رائیٹر ہیں۔ انہیں حالات حاضرہ پر اظہارخیال کا شوق ہے، اور اس کے لیے کی بورڈ کا استعمال بہتر سمجھتی ہیں- وہ ٹوئٹر پر deehanrarsi@ کے نام سے لکھتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔