تاریخ کے صفحات سے: جب وزیراعظم کو پھانسی دی گئی
یہی وقت تھا جب تین اپریل کی شام چار افسران کی ٹیم راولپنڈی کے جیل میں پاکستان کی تاریخ کا ایک باب ختم کرنے کے لیے داخل ہوئی۔
جیل سپرٹینڈنٹ یار محمد، مجسٹریٹ بشیر احمد خان، جیل ڈاکٹر صغیر حسین شاہ اور سیکیورٹی بٹالین کمانڈر و سیکیورٹی آفیسر لیفٹننٹ کرنل رفیع الدین عدالتی احکامات پر عملدرآمد کے لیے آئے تھے۔
جیسا کہ کرنل رفیع الدین نے اپنی کتاب بھٹو کے آخری 323 دن میں تحریر کیا ہے کہ جیل سپرٹینڈنٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کے سیل میں شام ساڑھے چھ بجے ایک شخص کے ساتھ دورہ کیا، جیل عہدیدار نے پی پی پی کے بانی کو فرش پر لیٹے ہوئے پایا تو اس نے ذوالفقار علی بھٹو کی توجہ حاصل کرنے کے لیے پہلے ان کا نام پکارا اور پھر پھانسی کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا۔
عدالتی احکامات کے مطابق " اٹھارہ مارچ 1978 کے لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق آپ یعنی ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے جرم میں پھانسی پر لٹکایا جائے گا، آپ کی سپریم کورٹ میں درخواست چھ فروری 1979 کو مسترد کردی گئی اور نظرثانی درخواست کو چوبیس مارچ 1979 کو رد کیا گیا۔ صدر پاکستان نے اس معاملے میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اب آپ کو لٹکانے کا فیصلہ کیا گیا ہے"۔
کرنل رفیع الدین اس موقع پر جیل سپرٹینڈنٹ کے ہمراہ کھڑے تھے اور وہ بتاتے ہیں " سپرٹینڈنٹ جب حکم نامہ پڑھ رہے تھے تو میں نے بھٹو صاحب کے چہرے پر کسی قسم کی فکر کے آثار نہیں دیکھے بلکہ میں نے انہیں پرسکون اور چہرے پر مسکراہٹ سجائے دیکھا"۔
جیل سپرٹینڈنٹ کی بات سننے کے بعد پی پی پی بانی نے کہا کہ انہیں پھانسی کے احکامات سزا کے چوبیس گھنٹے پہلے سنائے جانے چاہئے تھے مگر ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے زور دیا کہ جب صبح ساڑھے گیارہ بجے وہ اپنی اہلیہ اور بیٹی سے ملیں تو انہیں سزا کے دن یا وقت کے بارے میں معلوم نہیں تھا، جس پر انہیں بتایا گیا کہ سزا کا مطلوبہ حکم نامہ جیلر کے پاس تھا۔
کسی ہچکچاہٹ کے بغیر جیل سپرٹینڈنٹ نے ذوالفقار علی بھٹو سے پوچھا کہ کیا وہ چند گھنٹے بعد دی جانے والی سزا سے پہلے اپنی وصیت لکھنا چاہتے ہیں تو انہوں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے لکھنے کے لیے سامان مہیا کرنے کا کہا۔ انہوں نے جیلر کو یہ بھی کہا کہ انہیں بلیک وارنٹ دکھائے جائیں جس پر جیلر کا جواب تھا کہ قانون کے مطابق ایسا نہیں کیا جاسکتا۔
رات آٹھ بجے ذوالفقار علی بھٹو نے کافی کا ایک کپ پیا اور انہوں نے جیل میں اپنے اردلی عبدالرحمان کو طلب کرکے کہا کہ وہ انہیں معاف کردے۔ رات دس بجے کے قریب انہوں نے عبدالرحمان کو گرم پانی لانے کو کہا تاکہ وہ شیو بناسکیں۔
اس کے بعد بھٹو نے کرنل رفیع سے بات چیت کی " رفیع کیا یہ ڈرامہ ہے کیا اسے اسٹیج کیا گیا ہے؟"
اس سوال کا کوئی جواب نہیں ملا۔
پھر پی پی پی چیئرمین نے دانتوں پر برش کیا اور کچھ دیر تک اپنے بستر پر بیٹھ کر وہ کچھ لکھتے رہے۔ پھر انہوں نے وارڈن سے پوچھا کہ ان کی پھانسی میں کتنا وقت باقی ہے، انہیں وقت بتایا گیا جس کے بعد انہوں نے ان کاغذات کو جلا ڈالا جو انہوں نے تحریر کیے تھے۔
رات گیارہ بج کر 25 منٹ پر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے اردلی کو کہا کہ وہ کچھ دیر سونے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ گزشتہ رات صحیح طرح سو نہیں سکے تھے تاہم انہوں نے نصف شب کو اٹھانے کی بھی ہدایت کی۔
مگر جلد ہی اسسٹنٹ جیل سپرٹینڈنٹ اور دیگر عملہ سیل میں آگیا اور وہ چاہتے تھے کہ پی پی پی بانی اٹھ کر ان کے ساتھ باہر چلیں مگر جب انہیں کوئی جواب نہ ملا تو انہیں سیل کے اندر جانے اور وہ ذوالفقار علی بھٹو کو اٹھانے کی ہدایت ملی۔
عملے نے اس پر عملدرآمد کیا اور بمشکل ہی بھٹو کو آنکھیں کھولنے پر مجبور کرسکیں، ایک بار پھر پی پی پی رہنماءنے ڈاکٹر کی بات پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا، اس موقع پر کرنل رفیع الدین کی معاونت سے ذوالفقار علی بھٹو کا تیسری بار طبی معائنہ ہوا اور ڈاکٹر نے کہا کہ وہ بالکل ٹھیک ہیں۔
رات ایک بج کر 35 منٹ کے قریب حکام کی ٹیم سیل میں داخل ہوئی اور ذوالفقار علی بھٹو کو بستر پر آرام کرتے ہوئے دیکھا، مجسٹریٹ بشیر احمد خان نے ان سے دریافت کیا کہ کیا انہوں نے وصیت تحریر کی ہے، جس پر بھٹو نے مدھم آواز میں جواب دیا کہ انہوں نے کوشش تو کی تھی مگر ان کے خیالات بہت زیادہ منتشر تھے اس لیے وہ ایسا نہیں کرسکے اور کاغذات کو جلا دیا۔ پھر ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ پھانسی گھاٹ تک چل کر جائیں گے یا لے جائے جانے کو ترجیح دیں گے، اس سوال پر وہ خاموش رہے۔
کچھ سیکنڈ بعد جیل سپرٹینڈنٹ نے اپنے عملے کو طلب کیا جنھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو اٹھا کر اسٹریچر پر ڈال دیا، پی پی پی رہنماءاسٹریچر پر بے حس و حرکت لیٹے رہے اور اسی دوران انہیں ہتھکڑی پہنا دی گئی۔
جب انہیں چبوترے پر پہنچا دیا گیا تو دو وارڈنز نے انہیں پھانسی کے تختے تک پہنچنے میں مدد کی، ان کی ہتھکڑیوں کو اتارا گیا اور ایک بار جب ان کے ہاتھ کمر پر چلے گئے تو انہیں ایک بار پھر ہتھکڑی لگادی گئی۔
وہاں موجود تمام افراد خاموش کھڑے رہے۔
جلاد تارا مسیح پہلے سے ہی وہاں موجود تھا اور اپنے کام کے لیے تیار تھا، اس نے ذوالفقار علی بھٹو کے چہرے پر ایک نقاب چڑھایا۔
جب گھڑی کی سوئیاں دو بج کر چار منٹ پر پہنچی تو جلاد نے ذوالفقار علی بھٹو کے کان میں سرگوشی کی اور لیور کھینچ دیا، پی پی پی رہنماءکا جسم پانچ فٹ نیچے گرا اور آدھے گھنٹے تک اسی پوزیشن پر لٹکا رہا۔ اس کے بعد ایک ڈاکٹر نے معائنہ کیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو مردہ قرار دیا۔
تارا مسیح نے ذوالفقار علی بھٹو کی لاش کو اتارا اور ان کے ہاتھوں اور پیروں پر مالش کرنے لگا۔ کہا جاتا ہے کہ جلاد پی پی پی رہنماءکے اعضاءکو سیدھا کرنا چاہتا تھا جو کہ پھانسی کے اثرات سے مڑ گئے تھے۔
آدھے گھنٹے بعد ڈاکٹر نے موت کا سرٹیفکیٹ جیل سپرٹینڈنٹ کے حوالے کیا، ان کی میت جیل حکام کے حوالے کردی گئی جنھوں نے اسے غسل دیا۔
بعد ازاں میت کو تابوت میں رکھ دیا گیا اور پھر چکلالہ ائیربیس لے جایا گیا جہاں ایک سی 130 طیارہ جیکب آباد پرواز کرنے کے لیے تیار تھا، طیارہ اڑا مگر ایک گھنٹے کی پرواز کے بعد کسی خرابی کے باعث واپس لوٹ آیا۔ اس کے بعد ایک اور طیارہ میت اور حکام کو لے کر اڑا۔
بہت دور بے نظیر بھٹو نے وہ رات ناقابل برداشت اذیت اور پریشانی میں گزاری۔ چار اپریل 1979 کو علی الصبح وہ وقت تھا جب پاکستان کے وزیراعظم کو الوداع کہا جارہا تھا کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو ہم میں موجود نہ رہے تھے۔