نقطہ نظر

بچوں کے حقوق کے لیے آزاد کمیشن کی ضرورت

بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک ایسا آزاد کمیشن بنانے کی ضرورت ہے، جو صرف بچوں کے مسائل سے متعلق ہو۔

کسی بھی ملک و معاشرے میں جب بچوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوں، ان کی تعلیم و تربیت متاثر ہو، ان کی نشو نما کے راستے بند ہو جائیں یا محدود کر دیے جائیں، غذائی قلت کی بنا پر ان کے جسمانی عوارض میں اضافہ ہوجائے، یا ان کے کھیلنے کودنے کی راہ میں مشکلیں اور رکاوٹیں کھڑی کر دی جائیں، تو پھر ایسے ملک یا معاشرے میں اس سوال کا اٹھایا جانا ضروری ہو جاتا ہے کہ بچوں کے بنیادی حقوق کیا ہیں، اور ان حقوق کو یقینی بنانا کس کی ذمہ داری ہے۔

اس ضمن میں اسلام نے بچوں کو بھی وہی مقام دیا ہے جو نوعِ انسانی کے دیگر طبقات کو حاصل ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچوں کے ساتھ جو شفقت اور محبت پر مبنی سلوک اختیار فرمایا وہ معاشرے میں بچوں کے مقام و مرتبہ کا عکاس بھی ہے اور ہمارے لیے راہِ عمل بھی۔ اسلام میں بچوں کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ اسلام نے بچوں کے حقوق کا آغاز ان کی پیدائش سے بھی پہلے کیا ہے۔ ان حقوق میں زندگی، وراثت، وصیت، وقف اور نفقے کے حقوق شامل ہیں۔

بچوں کے حقوق کا اتنا جامع احاطہ کہ ان کی پیدائش سے بھی پہلے ان کے حقوق کی ضمانت فراہم کی گئی ہے، دنیا کے کسی نظامِ قانون میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ کسی بھی قوم کے مستقبل کے تحفظ کی ضمانت اِس اَمر میں پوشیدہ ہے کہ اس کے بچوں کی تعمیرِ شخصیت اور تشکیلِ کردار پر پوری توجہ دی جائے۔

یہ امر اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک بچوں کے حقوق کا واضح تصور اور ان حقوق کے احترام کا باقاعدہ نظام موجود نہ ہو۔ اسلام نے معاشرے کے دیگر افراد کی طرح بچوں کے حقوق کو بھی پوری تفصیل سے بیان کیا ہے جبکہ دور جدید میں بچوں کے حقوق کا تحفظ کرنے والی نمایاں دستاویز United Nations Convention on the Rights of the Child 1989 ہے جس میں بچوں کے بنیادی انسانی حقوق کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کنونشن میں بچے کو انسان جانتے ہوئے وہ تمام بنیادی حق دینے کی بات کی گئی ہے جو کسی بھی انسان کو حاصل ہونے چاہیئں۔

پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 11 (3) کے تحت 14 سال سے کم عمر کسی بچے کو فیکٹریوں یا کسی دوسرے خطرناک کام پر نہیں لگایا جا سکتا۔ آرٹیکل 25 (3) کے مطابق ریاست بچوں اور خواتین کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات کا مکمل حق رکھتی ہے۔ 20 نومبر 1989ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بچوں کے حقوق کے عالمی معاہدے کی منظوری دی۔ اس معاہدے پر، جو بچوں کو سماجی، معاشی اور ثقافتی حقوق فراہم کرتا ہے، پاکستان سمیت دنیا کے 190 ممالک نے دستخط کیے۔ پاکستان نے بچوں کے حقوق کے کنونشن کی توثیق 12 نومبر 1990ء میں کی جس کے مطابق اب حکومت اس بات کو یقینی بنانے کی ذمہ دار ہے کہ ہر بچے کو چائلڈ رائٹس کمیشن کے تحت حقوق ملیں۔

پڑھیے: ڈھائی کروڑ پاکستانی بچے اسکول نہیں جاتے

اس عالمی معاہدے کے مطابق بچوں کے حقوق یہ ہیں: اٹھارہ سال سے کم عمر کے تمام لڑکوں اور لڑکیوں کو بچہ مانا جائے گا، بچوں کے حقوق کے لیے معاہدے میں ”غیر امتیازی سلوک، بچے کا بہترین مفاد، حقوق کا نفاذ، بچوں کی صلاحیتیں، زندگی، پرورش، نام، شہریت، تحفظ و شناخت، والدین سے علیحدگی، خاندانی رشتے، اغوا، بچوں کی رائے، آزادی اظہار، مذہب، تنظیم سازی کی آزادی، تنہائی یا خلوت کا تحفظ، مناسب معلومات، والدین کی ذمہ داری، تشدد سے تحفظ، بچے کی حفاظت، بچے کو گود لینا، مہاجر/ پناہ گزین بچے، معذور بچے، صحت اور سہولتیں، نگہداشت کے مراکز، معاشرتی تحفظ، معیارِ زندگی، تعلیم، بہتر تعلیمی نظام، خصوصی/اقلیتی بچے، بچوں سے مشقت، ممنوعہ ادویات سے تحفظ، جنسی تشدد، بچوں کی خرید و فروخت، استحصالی عوامل، جسمانی تشدد، مسلح تصادم، بحالی حقوق اطفال، عدالتی انصاف کا حصول، اور اعلیٰ معیارکے لیے جدوجہد" وغیرہ شامل ہیں۔

پاکستان میں بچوں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں کے نیٹ ورک چائلڈ رائٹ موومنٹ کے فعال رکن سجاد چیمہ اور افتخار مبارک کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ "ملک میں نصف سے زیادہ آبادی 18 سال کی عمر سے کم افراد کی ہے لیکن بچوں کو ہراساں کرنے کے حوالے سے قوانین میں کوئی شق موجود نہیں ہے۔ مزدوروں کے قوانین میں بچوں کے حقوق کے بارے میں شق نہ ہونے کے نتائج نہایت سنگین نکلتے ہیں جس کا ثبوت ملک بھر میں گھریلو یا دیگر مزدور بچوں کے ساتھ ہونے والا بہیمانہ سلوک میڈیا کی زینت بن کر معاشرے کا منہ چڑاتا ہے۔"

ان کے مطابق بچوں کے تحفظ کے لیے جو قوانین موجود ہیں، ان پر عمل درآمد نہیں کروایا جا رہا کیونکہ کام کرنے والے بچوں کی نگرانی کے لیے کوئی انتظامی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ "اقوام متحدہ نے حکومتِ پاکستان کو چائلڈ پروٹیکشن پالیسی اپنانے کی تجویز دی ہے۔ پیٹ کی آگ بجھانے اور اپنے کنبے کی ضرورتیں پوری کرنے کی خاطر تقریباً 1 کروڑ 20 لاکھ بچے یا تو سڑکوں پر یا پھر گھروں میں کام کرنے پر مجبور ہیں جہاں انہیں صرف ”کاما“ سمجھا جاتا ہے، جہاں معمولی تنخواہ کے بدلے اس کی خدمات خرید لی جاتی ہیں، اور حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ قوانین کی عدم موجودگی میں ان کے ساتھ کیا برتاؤ ہوتا ہے، کسی کو نہیں معلوم۔"

مزید پڑھیے: نصف سے زائد جنوبی ایشائی لڑکیوں کی شادی کم عمری میں

پارلیمنٹ کی طرف سے 18ہویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد بچوں کے حقوق کو ایک صوبائی مسئلہ بنا دیا گیا ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبے اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے بچوں کے تحفظ کے لیے ایک ایسا الگ آزاد کمیشن بنائیں جو صرف بچوں کے مسائل سے متعلق ہو اور اس کمیشن میں ایسے افراد کی تعیناتی کی جائے جو انسان کی عزت کا مفہوم اور اس کا مقام جانتے ہوں۔ بچوں کے حوالے سے صحت، تعلیم، پولیس اور دیگر وفاقی اداروں سے متعلقہ شکایات چلڈرن کمپلینٹ آفس ہر ضلع میں بنائے جائیں جہاں بچے از خود، والدین، یا کوئی بھی شہری شکایات درج کروا سکتا ہو۔

اس ضمن میں بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم نیٹ ورک چائلڈ رائٹ موومنٹ کی جانب سے کی گئی کوششوں، جن میں پنجاب اسمبلی کے ممبران کی اکثریت سے ملاقاتوں، اور چائلڈ پروٹیکشن بیورو کو پیش کی گئی معروضات سے صوبائی حکومت چاہے تو استفادہ کر سکتی ہے۔

ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی سینئر صحافی، کالم نگار، اور انسانی حقوق خصوصاً بچوں اور خواتین کے حقوق کے سرگرم کارکن ہیں۔ سماجی ٹوٹ پھوٹ پر گہری نظر کے ساتھ انسانی تکریم اور احترام کے لیے جدوجہد ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔