نہ ِادھر کے، نہ اُدھر کے
عبداللہ اڑسٹھ سال کا ہوچکا ہے۔ اس کے بچے بھی اب ادھیڑ عمری سے گزر رہے ہیں۔ پوتے پوتیاں بھی کالج کی شکلیں دیکھ چکے ہیں۔ عبداللہ بیک وقت کئی بیماریوں کا شکار ہے۔ اس کی زندگی مسائل میں گھری رہی ہے۔ اسے کسی دور میں بھی سکون و چین نصیب نہ ہوا۔
عبداللہ کے بچے آپس میں برسرِ پیکار رہے۔ وہ ایک دوسرے سے کبھی خوش نہ رہے۔ ایسا نہیں کہ عبداللہ نے اچھی پرورش کی کوشش نہ کی ہو۔ لیکن پھر بھی وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے رہے اور آپس میں لڑ لڑ کر مرتے رہے۔ اسی چکر میں عبداللہ کو اپنے ایک بیٹے سے ہاتھ دھونا پڑا۔ وہ گھر چھوڑ کر الگ رہنے لگا۔
عبداللہ کو ساری زندگی اپنوں سے شکوہ بھی رہا۔ اسے اپنے دوستوں سے برے وقتوں میں ساتھ نہ دینے کا گلہ تھا۔ اسے لگتا تھا کوئی اس کا خیال نہیں کرتا۔ اسے اپنے پڑوسیوں سے بھی خوف رہا۔ یہاں تک کہ بات اکثر لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی۔ کئی کئی مہینوں بات چیت بند رہتی۔ وہ دونوں طرف کے پڑوسیوں سے ناراض رہا۔ یہاں تک کہ محلے کی پنچائیت بھی اس کے حق میں نہ ہوتی۔ ہر کوئی اسے پیار محبت کا جھانسہ دے کر بیوقوف بناتا رہا، اور وہ بھی فرصت سے دھوکے کھاتا رہا۔
اسے اپنی غربت کا بھی رونا تھا۔ وہ اکثر دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتا رہا۔ پھر بھی اس کی ضرورت پوری نہ ہو پاتی۔ اس کے ہاں تعلیم کی بھی کمی رہی۔ اور علم حاصل کرنے کا رجحان بھی بس زبانی کلامی رہا۔ وہ اکثر اپنا اُگایا ہوا اناج باہر فروخت کردیتا، پر خوشحالی پھر بھی اس کے پاس نہ آتی۔ وہ اپنے ہی گھر میں رہ کر انصاف کو ترستا تھا۔
اس کے بچے امن و امان کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے تھے، اوپر سے غربت نے عبداللہ کے گھر کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا تھا۔ اس کے بچے چھوٹی چھوٹی بات پر قتل و غارت مچا دیتے تھے۔ اس کا گھر غیر ضروری سیاست کی نذر ہوگیا تھا۔
عبداللہ کے بچے بات بات پر گھر میں الگ دیوار کھڑی کرنے کی باتیں کرنے لگتے۔ اسے اکثر لگتا تھا کہ اسے بلیک میل کیا جارہا ہے، لیکن وہ شاید محبت کے ہاتھوں مجبور تھا اور یہ مسائل جھیل جاتا تھا۔ بچوں کو اِدھر اُدھر باتوں میں لگا کر ان کا دھیان بٹا دیتا تھا۔ دیکھا جائے تو عبداللہ کی زندگی واقعی بڑے مسائل کا شکار تھی۔
لیکن حیران کن بات تو کچھ اور ہے۔ اتنے خوفناک مسائل کے باوجود عبداللہ کا اپنا دھیان کہیں اور لگا رہتا ہے۔ وہ اپنے مسائل تو بھگت ہی رہا ہے، لیکن اسے دوسروں کے مسائل میں ٹانگ اڑانے کا بڑا شوق رہا ہے۔ اس کی یہ عادت ابھی کی نہیں بلکہ برسوں پرانی ہے۔ اور بار بار ٹھوکر کھا کر گرنے سے بھی عبداللہ نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔
یہ ہر بار کسی کے مسئلے میں گھستا ہے اور اپنی پریشانیوں میں اضافہ کر کے واپس لوٹتا ہے۔ دور دراز کے بھائیوں کے مسائل نمٹانے کا بیڑا بھی عبداللہ نے ہی اٹھا رکھا ہے۔ اس نے راہ چلتے کافی لوگوں کو اپنا بڑا بھائی بنایا ہوا ہے۔ اور بھائی مدد کو پکارے یا نہیں، عبداللہ اپنے مسائل چھوڑ کر اس کی پریشانی کو مٹانے میں لگ جاتا ہے، چاہے اس چکر میں اس کا اپنا گھر مشکلات کا شکار ہی کیوں نہ ہو جائے۔
اسے بس ایک فکر رہتی ہے، اور وہ یہ کہ میرے بھائی کہیں مجھ سے منہ نہ پھیر لیں۔ اس کے لیے وہ اپنے اندرونی معاملات کو اللہ توکل پر چھوڑنے کو بھی راضی رہتا ہے۔ کیوں کہ اسے لگتا ہے اپنا گھر چلے نہ چلے، لیکن بھائیوں کو خوش رکھنا بے حد ضروری ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عبداللہ نہ اِدھر کا ہے نہ اُدھر کا۔
ہمارے ملک کی کہانی بھی عبداللہ سے مختلف نہیں۔ پاکستان اڑسٹھ سال کا ہوچکا ہے۔ اس کے اپنے مسائل کم نہیں۔ دہشت گردی سے لے کر غربت جہالت اور آپس میں اتحاد کا فقدان۔ لیکن پھر بھی ہم سعودی عرب اور یمن کے مسئلے کو اپنا مسئلہ بنانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ عبداللہ کی طرح ہم نے بھی ماضی سے سبق نہیں سیکھا۔ شاید ہمیں بھی اپنے گھر سے زیادہ دوسروں کو خوش رکھنے کا شوق ہے۔ شاید ہم بھی نہ اِدھر کے ہیں نہ اُدھر کے!
صادق رضوی ڈان نیوز میں اینکر اور ایگزیکٹو پروڈیوسر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔