صنفی برابری: رویے تبدیل کرنے ہوں گے
‘پاکستان ترقی کر رہا ہے’ کی توجیہ اکثر یہ پیش کی جاتی ہے کہ عورتیں زندگی کے مختلف شعبہ جات میں کارہائے نمایاں سر انجام دے رہی ہیں، یہاں کافی حد تک شخصی آزادی ہے، اور اس شخصی آزادی سے عورتیں بھی مردوں کی طرح لطف اندوز ہو رہی ہیں۔ ان تمام باتوں میں کافی حد تک سچائی بھی ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں خواتین کی تعداد اب پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، جبکہ کارپوریٹ سیکٹر میں بھی خواتین اپنا لوہا منوا چکی ہیں۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے معاشرے میں کیا ہمیں اب بھی صنفی برابری/امتیاز یا صنفی حساسیت جیسے موضوعات پر کام کرنے کی ضرورت ہے؟
ہاں۔
اور اس کی وجہ جاننے کے لیے شاید ہمیں اکیسویں صدی کے لیے مقرر کردہ اہداف ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز حاصل کرنے کی ہماری کوششوں کو جاننے کی ضرورت ہے۔ ہم ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے کتنا کام کر پائے ہیں، اور ان اہداف کو حاصل نہ کرنے کی وجوہات میں دہشتگردی کے علاوہ کون سی چیزیں کارفرما ہیں، آئیے ذرا ہم اپنے ارد گرد موجود کچھ عام چیزوں سے اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
پڑھیے: ملینیئم ڈیویلپمنٹ گولز۔۔۔ پاکستان کیوں ناکام؟
کسی معاشرے کی بنیاد کچھ ستون قرار دیے جاتے ہیں، جیسے کہ حکومت، عدلیہ، پارلیمنٹ وغیرہ وغیرہ۔ بدلتے زمانے کے تناظر میں ان ستونوں میں ایک اور مضبوط ستون کا اضافہ ابلاغ عامہ، یا میڈیا کی صورت میں ہوا ہے۔ میڈیا کئی جگہ ہمارے معاشرے کا عکاس ہوتا ہے، اور کہیں ہمارے معاشرے میں پنپتے ہوئے نئے رواج ابلاغِ عامہ کے عکاس ہوتے ہیں۔
معین اختر صاحب نے اپنے چاہنے والوں کے دل میں اپنے کام کے انمٹ نقوش چھوڑے۔ ان سے ایک انٹرویو میں میڈیا کے کردار کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ‘ٹی وی پر دکھائی جانے والی منفی چیزوں یا روایات کے لیے میڈیا یہ کہہ کر عہدہ برآں نہیں ہوسکتا کہ ‘ہم وہ ہی دکھاتے ہیں جو لوگ دیکھنا چاہتے ہیں۔’ میڈیا کا کردار اس سے بڑھ کر ہے، اتنا کہ آپ لوگوں میں کچھ دیکھنے کی عادت ڈال سکتے ہیں، آپ اتنے قوی ہیں۔ آپ ان کا taste develop کر سکتے ہیں، اور اسی وجہ سے ہمیں اپنی سماجی ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے اس سلسلے میں کام کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔’
ہم اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے اگر اس تجزیے کی روشنی میں دیکھیں تو ہمیں اس حوالے سے بہت امید افزا چیزیں نظر نہیں آئیں گی۔ اس کی ایک آسان مثال ٹی وی پر چلنے والے اشتہارات کی ہے۔ دودھ، مقوی مشروبات یا مقوی غذاؤں، کپڑے دھونے والے ڈٹرجنٹ کے متعلق کتنے ایسے اشتہارات ہیں جن میں کوئی "بچی" دکھائی جاتی ہے؟ اکثر اوقات ان میں اپنے "بیٹوں" کے لیے پریشان مائیں دکھائی جاتی ہیں، جو انہیں پڑھائی سے لے کر کھیل کود، اور دوڑنے کے مقابلوں میں انہیں آگے دیکھنا چاہتی ہیں۔ آپ وہاں کتنی بچیاں دیکھتے ہیں جن کے لیے ان کی ماؤں یا باپ کو خواب بنتے دکھایا جاتا ہے؟ بہت کم۔ لڑکیاں یا آپ کو شادی پر روتے رخصت ہوتے ہوئے نظر آئیں گی، یا پھر اپنے بالوں کے لیے پریشان۔
جلد سے متعلق مصنوعات کے اشتہارات کی تو بات ہی الگ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ساری لڑکیاں اپنی گہری رنگت کی وجہ سے زندگی کی دوڑ میں پیچھے ہیں، اور صرف رنگت بہتر ہونے سے وہ کامیاب ہو جاتی ہیں۔ گھروں میں مشینوں کی طرح کام کرنے والی عورتیں دکھائی جاتی ہیں جو یا تو کھانا پکاتی نظر آئیں گی، یا کپڑے دھوتی ہوئی۔ اگر کام کرتی ہوئی عورت دکھائی جائے گی تو وہ اپنی رنگت یا بالوں کی وجہ سے پریشان ہوگی۔ اشتہارات میں خواتین کو پراعتماد دکھایا بھی جاتا ہے تو اکثر تب، جب وہ کسی کریم کے استعمال کے بعد صاف رنگت حاصل کر لیتی ہیں اور اچانک ان کی شخصیت پراعتماد نظر آنے لگتی ہے۔ کسی بھی جگہ خواتین کو مثبت اور مضبوط، اور رول ماڈل کے طور پر پیش کرنے میں جھجھک کیوں ہے اور کس لیے ہے؟
مزید پڑھیے: پاکستانی خواتین کی موجودہ نسل تبدیلی لائے گی
اصل میں ہمارے معاشرے میں چیزیں اس سے مختلف ہیں، مثبت ہیں۔ ہمارے سماج میں عورتیں ترقی میں اپنا حصہ ہمیشہ سے دیتی آئی ہیں۔ فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت علی، بے نظیر بھٹو، اور ملیحہ لودھی سے لے کہ ملالہ یوسفزئی تک آپ کے پاس بہادر اور حوصلہ مند عورتیں ہیں۔ آپ کے پاس طب، تعلیم، عدلیہ، اور وکالت سے لے کر اب تو فضائیہ تک میں عورتیں اپنا آپ منوا چکی ہیں۔ تو اب بھی ہماری لڑکی عدم توجہی کا شکار کیوں ہے؟
پاکستان ان ممالک میں سر فہرست ہے، جہاں ماؤں کے بچوں کو جنم دیتے ہوئے موت کے منہ میں چلے جانے کا تناسب خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ اور جو بچ بھی جاتی ہیں ان میں سے بھی بڑی تعداد میں کمزوری کے باعث بچے میں مطلوبہ قوت کی منتقلی کے قابل نہیں ہوتیں، جس کی وجہ سے شیر خوار بچوں کی بڑی تعداد دنیا کا دلکش حصہ بننے سے پہلے ہی منہ موڑ جاتی ہے۔ ہمیں اپنی توجہ اس طرف مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
لیکن شاید اس سے بھی زیادہ ہمیں اپنے رویے اور چیزوں کو دیکھنے کے تناظر کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے معاشرے کے موجودہ حالات اور خواتین کی جانب ناانصافی اور عدم مساوات کو دیکھتے ہوئے آپ کی بیٹی کو آپ کی توجہ کی ضرورت بیٹے سے کہیں زیادہ ہے۔ آپ بے شک اسے وہ زیادہ توجہ نہ دیں، مگر کم سے کم اپنے بیٹے کے برابر ضرور دیں۔
اس چیز کو سمجھیں کہ وہ صرف ایک بچی، لڑکی یا عورت نہیں، ایک انسان ہے، جو کسی بھی دوسرے عام انسان کی طرح اپنے اندر کچھ صلاحیتیں اور رجحان قدرتی طور پر لے کر پیدا ہوئی ہے۔ اسے ان فطری صلاحیتوں کی بنیاد پر اپنا آپ منوانے دیجیے۔ اسے یہ بے شک بتائیے کہ وہ اہم ہے اس لیے اس کا تحفظ کیا جاتا ہے، لیکن اس تحفظ کی دیوار میں اس کی صلاحیتیں نہ دبنے دیجیے۔ ذرا سوچیے اگر فاطمہ جناح یا بے نظیر بھٹو کو تعلیم دلوانے کے بجائے گھر بٹھا دیا جاتا، تو پاکستان کے پاس نہ ہی مادرِ ملت ہوتیں، اور نہ ہی عالمِ اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم کا اعزاز۔
ان سارے اعزازات کے باوجود بد قسمتی سے ہم ابھی تک اپنا رخ شاید صحیح طور پر متعین نہیں کر سکے۔ مناسب لائحہ عمل کے نہ ہونے کی وجہ سے ہم جنسی نا انصافیوں کے خاتمے، اور ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں کمی کے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
جانیے: ماؤں اور بچوں کے قاتل ہم
جہاں ان اہداف کا حصول حکومت کی طرف سے کئی انتظامی اقدامات کا محتاج ہے، وہیں یہ ہمارے رویوں میں تبدیلی کا بھی محتاج ہے۔ ذرا غور کریں، کیا حکومت کی جانب سے گھر گھر پولیو کے قطرے پلانے کے لیے ٹیمیں نہیں بھیجی جاتیں؟ اس کے بعد بھی کئی لوگ گھر کی دہلیز پر میسر اس سہولت کو ٹھکرا دیتے ہیں۔
اس لیے ہمیں سب سے پہلے خود کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اگر ہم اپنے رویے تبدیل کریں گے، تو ان اہداف کا حصول زیادہ مشکل نہیں۔ ورنہ اگر رویے تبدیل نہیں کیے جائیں گے، تو حکومت کی جانب سے صنفی مساوات کی قانون سازی، خواتین پر تشدد کے خلاف قانون کی سخت پکڑ، اور صحت و تعلیم کی سہولیات یقینی بنائے جانے (اللہ کرے) کے باوجود خواتین کی ترقی ایک خواب ہی رہے گی۔
سمانی ابڑو ماس کمیونیکیشن اور بزنس میں ماسٹرز ہیں اور ایک عالمی ادارے کے ساتھ پچھلے پانچ سال سے اکاؤنٹٹ کی حیثیت سے منسلک ہیں۔ سیاست اورسماجیات ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: samani_abro@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔