این جے وی اسکول: روشن ماضی، تاریک حال
کراچی کے مختلف قدیم تعلیمی اداروں کے طلباء سے اگر ان کے اداروں کے نام پوچھے جائیں، تو وہ یوں بتائیں گے کہ میں N.E.D میں پڑھتا ہوں، میں D.J میں پڑھتا ہوں، N.J.V میں پڑھتا ہوں، میں D.C.T.O میں پڑھتا ہوں۔ گذشتہ دنوں ہم نے اپنے بھتیجے محسن سومرو کے ساتھ N.J.V اسکول کا دورہ کیا۔ ان کے والد شبیر سومرو ایک نامور صحافی ہیں۔
دورے کے دوران ہم نے اسکول میں صرف ایک چیز کی کمی محسوس کی، وہ تھی اسکول کے طلباء۔ کچھ بچے اسکول کے گراؤنڈ میں کرکٹ کھیل رہے تھے جب کہ کلاس روم خالی تھے۔ ایک بچے سے جب ہم نے پوچھا N.J.V کیا ہے؟ بچے نے ہمیں بتایا N.J.V ،N.J.V ہے، اور کیا ہے!
ہم سمجھ گئے کہ اسے اسکول کے نام سے کوئی آگاہی نہیں۔ مادرِ علمی کی تاریخ کے بارے میں اگر آگاہی نہ ہو، تو تعلیم تو مل جاتی ہے، لیکن اس درسگاہ سے تعلق قائم نہیں ہو پاتا۔ اور یہی حال ان تعلیمی اداروں کے بچوں کا بھی ہے جن کا ہم نے شروعات میں ذکر کیا۔ آئیں کراچی کے اس مشہور اسکول کی تاریخ پر کچھ تحقیق کرتے ہیں۔
این جے وی اسکول مہاراج جگن ناتھ ودیا کے نام سے منسوب ہے۔ گزیٹئر آف دی پراونس آف سندھ کراچی ڈسٹرکٹ (مرتبہ جے ڈبلیو اسمتھ، انڈس پبلیکیشنز کراچی) کے مطابق 'نارائن جگر ناتھ (شاید پروف کی غلطی کی وجہ سے جگن ناتھ جگر ناتھ ہوگیا) ہائی اسکول سندھ میں قائم ہونے والا پہلا سرکاری اسکول تھا۔ اس کا افتتاح اکتوبر 1855 کو ہوا۔ اس وقت اسکول میں 68 طلباء زیرِ تعلیم تھے۔ اسکول کی عمارت بندرروڈ اور مشن روڈ کے سنگم پر قائم تھی۔ اس کا نقشہ لیفٹیننٹ چیپ مین نے تیار کیا تھا اور تعمیری اخراجات میونسپلٹی اور حکومت نے برداشت کیے تھے۔
1876 میں اسکول موجودہ عمارت میں منتقل کیا گیا۔ عمارت میں 17 کلاسوں کی گنجائش تھی۔ مارچ 1916 میں اسکول کے طلباء کی تعداد 477 تھی جس میں 350 ہندو، 32 برہمن، 10 جین، 12 مسلمان، 66 پارسی، اور 7 ہندوستانی یہودی شامل تھے۔ نارائن جگر ناتھ بمبئی کے پڑھے لکھے انسان تھے اور جن کے نام پر اس اسکول کا نام رکھا گیا تھا۔ انہوں نے اس صوبے میں تعلیم کو پھیلانے میں بہت اہم کردار ادا کیا جہاں پر کتابوں اور اساتذہ کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ثانوی تعلیم کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو دیکھتے ہوئے 1910 میں ایک نیا ہائی اسکول تعمیر کیا گیا، جس میں 250 لوگ تھے اور اسے گورنمنٹ کی طرف سے 4,020 روپے کا گرانٹ دیا گیا تھا۔
16-11-1987 کو محکمہ تعلیم سندھ اور حکومت سندھ کو ایک خط ارسال کیا گیا جس کا عنوان یہ تھا کہ ”این جے وی گورنمنٹ اعلیٰ ثانوی تعلیم اسکول (سندھی میڈیم) کراچی میں تعلیمی سہولیات کو مزید بہتر کرنے کے لیے تجاویز“۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ:
"این جے وی گورنمنٹ اعلیٰ ثانوی اسکول (سندھی میڈیم) اس صوبے کا سب سے قدیم تعلیمی ادارہ اور سندھ میں قائم ہونے والا سب سے پہلا گورنمنٹ اسکول ہے۔ یہ اکتوبر 1855 میں قائم کیا گیا اور اس وقت اس میں 68 لڑکے تھے۔ 46-1945 میں یہ اسکول اپنی اصل جگہ سے کچھ وقت کے لیے کوتوال بلڈنگ میں منتقل کیا گیا اور پھر بالآخراپنی موجودہ جگہ جو کہ سندھ اسمبلی کی سابقہ عمارت تھی، اس جگہ 47-1946 میں منتقل کردیا گیا۔
"صوبے کے سب سے پہلے تعلیمی ادارے ہونے کی وجہ سے اس اسکول نے تعلیم کے لیے واضح طور پر بہت اہم خدمات انجام دیں۔ یہ اسکول تعلیم اور دوسری ہم نصابی سرگرمیوں کے سیکھنے کا مرکز رہا ہے۔ اس اسکول نے اپنا عروج اور شان و شوکت دیکھا اور اس کا نام ماضی میں بہت نمایاں رہا۔ نامور شخصیات، اسکالر اور سیاست دان اس اسکول سے فارغ التحصیل ہوئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تجاوزات کی وجہ سے اس اسکول نے اپنی رونق کھو دی ہے۔ اس کے احاطے میں سرکاری دفاتر قائم ہوچکے ہیں۔ لیکن وہ وقت بھی ضرور آئے گا جب یہ اسکول اپنا کھویا ہوا عروج اور پہچان دوبارہ حاصل کر لے گا۔ بس ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کی تھوڑی سی توجہ درکارہے۔"
اس درخواست میں یہ بھی تحریر ہے کہ اگر اسکول کی عمارت میں موجود سرکاری دفاتر کہیں اور منتقل کردیے جائیں تو طلباء کی تعداد 300 سے زائد ہوسکتی ہے۔
این جے وی اسکول کو سندھ کی تاریخ میں اس حوالے سے بھی اہمیت حاصل ہے کہ تقسیم کے بعد سندھ اسمبلی کی عمارت این جے وی اسکول میں منتقل کی گئی تھی۔ این جے وی اسکول کے بارے میں سید مصطفیٰ علی بریلوی اپنی کتاب ”مسلمانان کراچی وسندھ کی تعلیم (از عہد قدیم تا قیام پاکستان)“ کے صفحہ نمبر 105 پر لکھتے ہیں کہ:
”مارچ 1917 میں اس اسکول میں 477 طلباء تعلیم پا رہے تھے۔ اتنی بڑی تعداد میں مسلمان بچوں کی تعداد صرف 12 تھی۔ مسلمان طلباء کی اتنی مختصر تعداد سے اعلیٰ تعلیم میں مسلمانان کراچی اور سندھ کی کمزور حالت ظاہر ہوتی ہے۔“
این جے وی اسکول کا قیام تقریباً ڈیڑھ صدی قبل ہوا تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ 1919 میں جے ڈبلیو اسمتھ کی مرتبہ گزیٹیئر کے مطابق طلباء کی تعداد 477 تھی اور ان میں 350 ہندو اور 32 برہمن تھے یعنی اسکول میں بھی ہندوؤں اور برہمنوں کے درمیان فرق کیا جاتا تھا۔ 1986 میں بھی اسکول کے طلباء کی تعداد 300 کے قریب تھی۔
اسکول کی بحالی کے لیے جدوجہد کرنے والے صحافی ذوالفقار واہوچو جنہوں نے سندھ حکومت سے دور دراز کے علاقوں سے آنے والے بچوں کے لیے ایک بس بھی حاصل کی۔ لیکن بس ملنے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بس کے لیے ایندھن کا بندوبست کس طرح کیا جائے۔
ان کے مطابق 2015 میں بھی اسکول کے بچوں کی تعداد 300 کے لگ بھگ ہی ہے۔ ہماری سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے کہ 160 سال سے زائد گزرنے کے بعد بھی طلباء کی تعداد میں اضافہ نہ ہونے کی وجوہات کیا ہیں؟
اس اسکول سے سندھ کے مایہ ناز ادیبوں، دانشوروں اور سیاست دانوں نے تعلیم حاصل کی ہے۔ ان میں ممتاز کالم نگار اور ادیب امر جلیل، سابق صوبائی وزیر تعلیم پیر مظہر الحق، موجودہ رکن صوبائی اسمبلی شفیع محمد جاموٹ، اور ممتاز صحافی حسن منصور شامل ہیں۔ ان شخصیات کے علاوہ سندھ کی نامور شخصیت حشمت ٹہلرام کیول رامانی نے بھی اسی اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ سوال یہ ہے کہ ماضی کی یہ عظیم تعلیم درس گاہ کیا دوبارہ عروج حاصل کرسکے گی۔
دیگر ممالک میں تو اپنی نامور شخصیات کی مادرِ علمی میں ان کے ناموں پر چیئرز قائم کی جاتی ہیں، اور قدیم درسگاہوں کی تاریخی حیثیت برقرار رکھتے ہوئے انہیں ترقی دلوائی جاتی ہے۔ کراچی کے بھی کئی قدیم تعلیمی ادارے ہیں جنہیں حکومت اب ترقی دے رہی ہے لیکن این جے وی اسکول اب تک گوشہ گمنامی میں ہے۔ معلوم نہیں اس اسکول پر کسی کی نظر کب پڑے گی اور کب اسے جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا۔
ویسے اس اسکول کے بارے میں ایک اور دل چسپ بات یہ ہے کہ 1946 تک اسکول کے تمام ہیڈ ماسٹرز غیر مسلم تھے اور اس کے بعد تمام مسلمان۔ کیوں کا جواب تو آپ بہتر جانتے ہیں۔
اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔