‘الطاف حسین کو ملک واپس لانے کا معاملہ زیرِ غور’
اسلام آباد: وزیرِداخلہ چوہدری نثار علی خان نے انکشاف کیا ہے کہ حکومت ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کی حوالگی سے متعلق قانونی امکانات کا جائزہ لے رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے پر اگلے چند دنوں میں کسی فیصلے پر پہنچا جاسکتا ہے۔
وہ ایک سوال کا جواب دے رہے تھے کہ آیا حکومت الطاف حسین کو پاکستان واپس لانے کے امکانات پر انٹرپول سے رابطے میں ہے یا نہیں۔
وزیرداخلہ نے تصدیق کی کہ انہوں نے برطانوی ہائی کمشنر فلپ بارٹون کے ساتھ الطاف حسین کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
یاد رہے کہ ایک نجی چینل پر دیے گئے ایک انٹرویوں کے دوران انہوں نے رینجرز اہلکاروں کو مبینہ طور پر دھمکی دی تھی۔
انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے برطانوی ہائی کمشنر سے پوچھا تھا کہ برطانوی علاقے میں رہائش پذیر افراد کی جانب سے دی گئی دھمکیوں کے حوالے سے برطانیہ کا قانون کیا کہتا ہے۔
لیکن انہوں نے اس بات کو مسترد کردیا کہ انہوں نے کسی قسم کی دستاویزات فلپ بارٹون کے حوالے کی ہیں، جو اس وقت برطانیہ میں موجود ہیں۔
چوہدری نثار نے کہا کہ ایم کیو ایم کو بطور سیاسی اکائی کے طور پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھنی چاہیے، اس لیے کہ اس کے پاس محب وطن ووٹروں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔
متحدہ اور حکومت کے پیچیدہ تعلقات کی نوعیت پر تبصرہ کرنے کے لیے جب ان سے کہا گیا تو انہوں نے کہا کہ کراچی میں آپریشن متحدہ کے خلاف نہیں بلکہ اس کارروائی کا مقصد شہر میں جرائم کے خاتمہ ہے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ سیکیورٹی ایجنسیوں کو ستمبر 2013ء میں تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایک خصوصی مینڈیٹ دیا گیا تھا۔
وزیرداخلہ نے کہا کہ ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستّار نے ستائیس اگست کو تجویز دی تھی کہ کراچی کو فوج کے حوالے کردیا جائے، مزید یہ کہ انہوں (چوہدری نثار) نے متحدہ کی درخواست پر سول آرمڈ فورسز کی جانب سے کارروائی کا وعدہ کیا تھا۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کا آپشن زیرِ غور نہیں ہے۔
وزیرِداخلہ نے ابتداء میں سندھ کے گورنر عشرت العباد کی برطرفی اور سندھ میں گورنر راج نافذ کردیا جائے گا، سے متعلق رپورٹوں پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
انہوں نے مختصر وقفے کے بعد کہا ’’میں اس بات پر کیسے تبصرہ کرسکتا ہوں، جو زیرِ غور ہی نہیں ہے۔‘‘
وزیرداخلہ نے اس الزام کو بھی مسترد کردیا کہ سابقہ کے ای ایس سی کے مینجنگ ڈائریکٹر شاہد حامد کے قتل کے مجرم صولت مرزا کی پھانسی کو ملتوی کرکے ایم کیو ایم کو دیوار سے لگایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابتداء میں بلوچستان حکومت کی درخواست پر 72 گھنٹوں کے لیے اس پھانسی میں تاخیر کی گئی تھی۔
صولت مرزا کے پُراسرار انٹرویو جس میں اس نے اعتراف کیا ہے کہ شاہد حامد کا قتل اس نے الطاف حسین کے حکم پر کیا تھا، پر بالواسطہ طور پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیرِداخلہ نے کہا کہ سیکیورٹی ایجنسیوں کا خیال ہے کہ اس بیان کی مزید تحقیقات کی جانی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اس کی پھانسی میں تاریخ میں تین مہینے کی تاخیر کے لیے ایک سمری وزیراعظم کے ذریعے صدر کے پاس بھیجی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں وزیراعظم کے آفس سے ایک خط موصول ہوا ہے، جس میں ہم سے اس کی پھانسی کی اگلی تاریخ کے بارے میں پوچھا گیا ہے، آج ہم نے اس کے جواب میں مطلع کیا ہے کہ اس کی تاریخ یکم اپریل ہے۔‘‘
وزیرداخلہ نے کہ تاخیر کی منظوری صدر کی صوابدید پر منحصر ہے، اور انہوں نے اس تاثر کو مسترد کردیا کہ پھانسی پر عملدرآمد میں ٹال مٹول سے کام لے کر قانون شکنی کی کوشش کی گئی تھی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ سزائے موت کے ایک قیدی کا انٹرویو کس طرح لیا گیا اور کہاں اور کب اس کو باہر لایا گیا، تو وزیرداخلہ نے کہا کہ اس سلسلے میں ضابطے کی ایک کارروائی اس وقت جاری ہے۔
انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ صولت مرزا کے بیان کی روشنی میں ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کردیے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ای سی ایل کی نئی پالیسی اگلے ہفتے متعارف کردی جائے گی، جس کے تحت کسی فرد کے نام کو اس فہرست میں شامل کرنے کی زیادہ سے زیادہ حد تین سال ہوگی۔
اس کے علاوہ وزیرداخلہ نے کہا کہ اب تک صوبوں نے دہشت گردی کے پچاس مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجے ہیں۔انہوں نے کہا کہ نو فوجی عدالتیں اب قائم کی گئی تھیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ وادیٔ تیراہ میں ملّا فضل اللہ کی ہلاکت کے بارے میں رپورٹوں کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔