پاکستان

’انتہاپسند‘ مدارس کے خلاف کوئی مہم جاری نہیں

حکومت کا کوئی ادارہ ان مدرسوں کی شناخت کے لیے مہم کا آغاز کرنے کے لیے تیار نہیں، جو دہشت گردی میں ملوث ہیں۔

اسلام آباد: نیشنل ایکشن پلان کی رونمائی کے تین مہینے بعد اور وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان کے اس انکشاف کہ تمام مذہبی مدارس میں سے شاید دس فیصد دہشت گردی میں ملوث ہیں، کو دو مہینے سے زیادہ کا عرصہ گزرجانے کے بعد بھی ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کا کوئی ادارہ ان مدرسوں کی شناخت کے لیےمہم کا آغاز کرنے کے لیے تیار نہیں۔

انسدادِ دہشت گردی کے قومی ادارے نیکٹا کے متعلقہ حکام اور وزارتِ داخلہ نے اس مسئلے پر باضابطہ طور پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا، جبکہ نیکٹا کے ایک اہلکار نے ڈان کو آف دا ریکارڈ بتایا کہ وزارتِ مذہبی امور نے اس کوشش کے لیے ربط پیدا کرنے والا اہم ادارہ ہے۔

اسی طرح وزارتِ داخلہ کے ایک اہلکار، جنہوں نے بھی نام ظاہر نہ کرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سیکریٹری داخلہ نے مذہبی امور کے سیکریٹری سے تین معاملات پر مذہبی مدارس کے ساتھ تعاون کے لیے کہا تھا۔

انہوں نے مزید کہا ’’ان تین معاملات میں سرمائے کے ذرائع اور خصوصاً غیرملکی فنڈنگ، مدرسوں کی رجسٹریشن اور نگرانی شامل ہیں۔‘‘

حکومت اس بات کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کے لیے تیار ہو یا نہیں، اس بات سے انکار نہیں کرسکتی کہ مدرسوں کے ساتھ مذاکرات میں شریک حکومت کا واحد محکمہ مذہبی امور کا محکمہ ہے۔


کیا یہ محض مذہبی معاملہ ہے؟


وزیرِ مذہبی امور سردار محمد یوسف کہتے ہیں کہ ان کی وزارت نے مذہبی شعبوں کی اصلاح، مدرسوں کی رجسٹریشن کو منظم کرنے اور مدرسوں کو سہولت بہم پہنچانے پر اپنی توجہ مرکوز کی ہوئی ہے۔

سرکاری طور پر ایسی کوئی خبر موجود نہیں ہے کہ وزارتِ داخلہ یا اس کے کسی محکمے نے مدارس کے نمائندوں سے ملاقات کی ہے۔

اس کامطلب یہ ہے کہ مدارس سے متعلق حکومت کی کوششیں ماضی میں کیے گئے اقدامات سے مختلف نہیں ہیں۔

وزیرِ مذہبی امور نے کہا ’’ہم نے گیارہ سال بعد مدرسہ تعلیمی بورڈ کے اجلاس کا انعقاد کیا تھا، اور اعلی تعلیمی کمیشن (ایچ ای سی) کی طرز پر ایک اسلامی تعلیمی کمیشن کے قیام کی تجویز سامنے آئی ہے۔ ان اقدامات سے مدارس میں موجود خرابیاں درست ہوں گی۔‘‘

اگرچہ وفاقی وزیر نے اس بات کی وضاحت سے انکار کردیا کہ ’’خرابیوں‘‘ سے ان کی مراد کیا ہے، تاہم انہوں نے زور دیا کہ وزارتِ مذہبی امور کا دہشت گردی یا مدارس کو غیرملکی فنڈنگ کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔

اکیس دسمبر 2014ء کو وزیرِ داخلہ نے میڈیا کو دیے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’’انٹیلی جنس رپورٹوں کی بنیاد پر 90 فیصد مدارس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘

اتنا کہتے ہوئے انہوں نے نشاندہی کی کہ کم از کم دس فیصد مدراس دہشت گردی سے منسلک ہیں، جس کی وجہ سے مدارس کی اصلاحات بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان کا اہم مقصد تھا۔

ایک مہینے بعد اٹھارہ جنوری 2015ء کو انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ’’مذہبی اداروں سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ ممکنہ دہشت گردوں کی شناخت کے لیے حکومت کے ساتھ تعاون کریں۔‘‘

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر کسی مدرسے پر کسی قسم کی دہشت گرد سرگرمی کا کوئی بھی اشارہ ملا، تو فوری طور پر سخت کارروائی کی جائے گی۔

ان کے الفاظ نے مدارس کو مشتعل کردیا تھا، اور ان کی جانب سے چھاپہ مار کارروائی کی صورت میں وسیع پیمانے پر تحریک شروع کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔

اس کے بعد وزارتِ داخلہ نے تیس دسمبر 2014ء کو پانچ اہم وفاق اور جماعت اسلامی کو اس مسئلے پر تبادلہ خیال کے لیے دعوت دی تھی۔ تاہم آخری لمحات میں مذہبی علماء کے اجتماع کو بتایا گیا کہ اس اجلاس کی صدارت وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کے بجائے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور کریں گے۔

اس کے بعد سے دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات میں اور سابق صدر مشرف اور پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں مدرسے کے نظام اور مرکزی تعلیمی دھارے کے درمیان فرق کو کم کرنے کے لیے جو کچھ کیا گیا، کوئی فرق باقی نہیں رہا۔

لیکن اس بات چیت کی اہمیت اس لیے ختم ہوگئی کہ ان اجلاسوں کی تعداد میں کمی آئی ہے، اور ان کوششوں کے بارے میں مدارس کی جانب سے بیان بازی میں بھی کمی آئی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مدرسے کے بورڈز نے پہلے ہی دو اجلاسوں کا بائیکاٹ کردیا ہے۔


سرمائے کا سوال؟


ایسا لگتا ہے کہ وزارتِ داخلہ کی طرح اسٹیٹ بینک کو بھی مدرسوں کے مشکوک لین دین کے عملی تفصیلات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

ایک بینک اہلکار نے بتایا ’’مدرسوں کی رجسٹریشن سے یہ تمام مسائل درست ہوں گے، جس کے تحت تمام مدرسوں کے بینک اکاؤنٹ درکار ہوں گے، اور پھر فنڈنگ کے ذرائع کو تلاش کرنا آسان ہوجائے گا۔‘‘

مذکورہ اہلکار نے کہا ’’قانونی طور پر رقم منتقل کرنے کے لیے دو طریقے ہیں، ایک تو بینکنگ اور دوسرا ایکسچینج کمپنیاں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ وزارتِ خزانہ کا فنانشنل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) کسی قسم کی غیرمعمولی منتقلی کی جانچ کا ذمہ دار ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے بعد ایف ایم یو وزارتِ داخلہ کے ساتھ کام کررہا ہے۔

لیکن مدرسوں کے عطیات کے حوالے سے امکانات ہیں کہ ان کے لیے رقم کی وصولی کا روایتی بینکنگ کا طریقہ کار استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے عطیات بیرون ملک سے بھی ہنڈی، حوالہ یا نقد رقم کی صورت میں آتے ہیں۔

ہنڈی یا حوالہ کے معاملات فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے دائرہ اختیار کے تحت آتے ہیں، جسے کسٹم کے محکمے کے ساتھ ایئرپورٹ پر مسافروں کے سامان میں رقم کی ممکنہ موجودگی کی جانچ کے لیے ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔

ان محکموں کی جانب سے مدارس کے ضمن میں کسی قسم کی خصوصی توجہ کی بہت کم اطلاعات ہیں۔ مذہبی امور کی وزارت اور مدارس کی ایک ناراض کمیٹی کے درمیان جاری مذاکرات ’واحد‘ کارروائی ہے۔

وفاق المدارس العربیہ جو پاکستان میں دیوبندی فرقے کے زیادہ تر مدارس کی سرپرست تنظیم ہے،کے ترجمان مولانا عبدالقدوس کہتے ہیں ’’ہم نے پہلے بھی کہا ہے اور اب اس حکومت سے بھی یہی کہتے ہیں، کہ ہم مدرسے سے منسلک کسی فرد جو ہمارے ساتھ وابستہ ہو، کی دہشت گردی، مجرمانہ یا سماج مخالف کارروائی کے ذمہ دار نہیں ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا ’’لیکن لوگوں کو تین لاؤڈاسپیکر نصب کرنے پر حراست میں لے لیا گیا ہے، یہ غلط ہے۔‘‘

اسی طرح ایک بریلوی اتحاد تنظیم المدارس اہلِ سنت پاکستان کے مرکزی ناظم اعلیٰ مولانا عبدالمصطفیٰ ہزاروی کہتے ہیں کہ سات ہزار سے زیادہ مذہبی علماء یا مسجد کمیٹی کے اراکین کو پنجاب میں اذان سے پہلے ’درود و سلام‘ کا ورد کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا ’’اس سب کے بعد حکومتِ پنجاب نے نو مارچ کو اذان کے ساتھ ’درود و سلام‘ کے ورد کی اجازت دی۔ لیکن دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ یہاں تک کہ اس غدار مذہبی پیشوا کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی، جس نے اسلام آباد میں ایک سرکاری مسجد پر قبضہ کر رکھا ہے اور اس کو ہم سے کہیں زیادہ حقوق حاصل ہیں، جبکہ ہم کبھی بھی کسی قسم کی ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث نہیں رہے۔‘‘

اسی طرح کے نکتہ نظر کا اظہار وفاق المدارس الشعیہ اور جماعت اسلامی کے عہدے داروں کی جانب سے کیا گیا، جنہوں نے وزارتِ داخلہ سے بار بار کہا کہ وہ دہشت گردی میں ملوث مدارس کے ناموں کی وضاحت کرے۔

مگر حکومت کی جانب سے خاموشی برقرار ہے۔

اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ حکومت کے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اسلام آباد اور راولپنڈی پولیس کی اسپیشل برانچ کی جانب سے تیار کی گئی ایک رپورٹ میں ایسے مدراس کی نشاندہی کی گئی تھی، جوٹی ٹی پی کے ساتھ قریبی روابط رکھتے تھے اور حملوں کے لیے انہیں بطور اڈے کے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

لیکن اس رپورٹ کی بنیاد پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی، جس میں کہا گیا تھا کہ ’’تربیت یافتہ دہشت گرد، ان کے رہنما اور کمانڈرز بھی فاٹا میں اپنے ٹھکانوں سے فرار ہوکر ایبٹ آباد، کاکول، نتھیاگلی، مری، الیات اور پھگواڑی کے پہاڑی علاقوں میں پناہ لے سکتے ہیں۔ ‘‘

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا کہتے ہیں، ’’ایسا لگتا ہے کہ خطرات کے حوالے سے حکومت کا تصور مختلف ہے۔ اس مسئلے پر کچھ بھی واضح نہیں ہے۔‘‘

اور بدقسمتی سے مدارس کے نصاب اور نئے رجسٹریشن فارمز پر مذاکرات کہیں بھی جاری نہیں ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ شیعہ، بریلوی، دیوبندی اور اہلِ حدیث فرقوں کے ساتھ الحاق شدہ مدارس کی نمائندی کرنے پانچ معروف بورڈز اور جماعت اسلامی کی جانب سے چلائے جانے والے مدرسوں کے ساتھ منسلک ایک بورڈ کے متحدہ فورم کو حکومتی تجاویز پر بہت سے تحفظات ہیں، جن میں مدرسہ ایجوکیشن بورڈ جو وزارتِ مذہبی امور کے تحت ایک نیم خودمختار ادارہ ہے، بھی شامل ہے۔

انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) کے ڈائریکٹر خالد رحمان کہتے ہیں ’’وفاق حکومت پر اعتماد نہیں کرتا۔ اگر سنجیدگی کے ساتھ کچھ نہیں کیا گیا تو کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا۔‘‘