نقطہ نظر

ایم کیو ایم اور اسٹیبلشمنٹ کا امتحان

کراچی کے حالات صرف اور صرف سیاسی عمل کے ذریعے ہی ٹھیک ہو سکتے ہیں اور ہونے چاہیئں۔

متحدہ قومی موومنٹ کے ہیڈکوارٹر نائن زیرو پر چھاپے اور دفتر کے قریبی علاقے سے قتل اور دیگر کارروائیوں میں ملوث ملزمان کی گرفتاری، قتل کے مجرم ایم کیو ایم کے کارکن صولت مرزا کے اعترافی بیانات، اور الطاف حسین کے خلاف مقدمے کے باوجود متحدہ خاموش ہے۔ عام طور پر جس طرح ایم کیو ایم اپنے خلاف ہونے والے اقدامات کے خلاف کراچی میں احتجاج کرتی ہے، اس بار اس طرح احتجاج، ہنگامہ، اور ہڑتال نہیں ہو رہی۔ رینجرز اور فوج کے خلاف پارٹی سربراہ کے سخت ترین بیانات کے بعد وفاقی حکومت کا یہ موقف سامنے آیا ہے کہ وہ الطاف حسین کے حوالے سے برطانوی حکومت سے رجوع کرنے جارہی ہے۔

ایم کیو ایم کے لیے امتحان ہے کہ وہ خود کو ان تمام الزامات سے صاف کر کے ایک سیاسی پارٹی کے طور پر ابھرتی ہے یا پھر کارروائیوں کا سامنا کرتی ہے۔

امتحان صرف ایم کیو ایم کے لیے ہی نہیں بلکہ خود اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی ہے کہ وہ اب مزید کس رخ میں آگے بڑھے؟ مختلف حلقوں سے آنے والی اطلاعات کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کے پاس دو آپشن ہیں۔ اول یہ کہ دہشتگردی وغیرہ کے الزامات کی بناء پر اس جماعت پر پابندی عائد کردے۔ خیال کیا جارہا ہے کہ اس کے لیے مطلوبہ مواد اور شواہد موجود ہیں۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ اس کی لڑاکا ونگ کو ایک طرف کر کے اس کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے قیادت تبدیل کردی جائے۔ تیسرا آپشن یہ ہے کہ مسلسل آپریشن جاری رکھا جائے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کی گئی ہو۔ چھوٹا موٹا گروپ ہوتا تو پابندی لگا کر شاید مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکتے تھے۔ لیکن جب ایک ایسی سیاسی جماعت جو اپنے قیام کے بعد سے پارلیمنٹ میں اور متعدد مرتبہ حکومت میں بھی رہی ہو، کیا اس پر پابندی لگانا فائدہ مند ثابت ہوگا؟ کسی جماعت پر پابندی لگانے سے الٹا اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور ہمدردیاں بڑھ جاتی ہیں۔ نوجوانوں کے لیے رومانس پیدا ہو جاتا ہے اور یہ اپنے طور پر ایک مکتبہ فکر بن جاتا ہے جس سے نمٹنا پھر آسان نہیں رہتا۔

ماضی میں سیاسی جماعتوں پر بندشیں ڈالنے کے نہ اچھے نتائج نکلے ہیں، اور نہ اب نکلیں گے۔ بھٹو دور میں نیشنل عوامی پارٹی پر بندش ڈالی گئی اور سپریم کورٹ سے بھی بندش کی توثیق کروا لی گئی۔ کیا اس سے نیپ یا اس کی سیاست ختم ہوگئی؟ بعد میں یہی جماعت کبھی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے نام پر تو کبھی عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے کام کرتی رہی۔ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر بھی پابندی عائد کی گئی لیکن یہ تحریک سالہا سال تک زیر زمین کام کرتی رہی اور وہ اپنا ایک اثر رکھتی تھی۔

مشرف کے دور میں نواز شریف کی لندن میں طلب کردہ ایک گول میز کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا کہ اب کوئی بھی جماعت ایم کیو ایم سے اتحاد یا تعلق نہیں رکھے گی۔ یہ ایک دہائی پہلے کی بات ہے۔ لیکن یہ فیصلہ دھرا کا دھرا رہ گیا۔ بعد میں اس کانفرنس کی شرکاء تمام جماعتیں ایم کیو ایم سے رابطے کرتی رہیں۔ نواز شریف کی طلب کردہ اس کانفرنس کے اس فیصلے پر بینظیر بھٹو نے کیا خوب کہا تھا کہ کسی بھی جماعت کے سیاسی رول کو جبری طور پر روکا نہیں جا سکتا۔

دوسرا آپشن قیادت کی تبدیلی ہے۔ یہ پرانا ”مائنس ون“ فارمولا ہے۔ یہ فارمولہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پیپلز پارٹی پر آزمایا گیا تھا کہ پارٹی کی قیادت بھٹو کے بجائے کسی اور کے ہاتھوں میں دی جائے۔ بعد میں بینظیر بھٹو کے زمانے میں بھی مختلف تجربے ہوتے رہے۔ بھٹو کے ”رفقا“ میں سے مولانا کوثر نیازی نے نیشنل پروگریسو پارٹی بنائی، غلام مصطفیٰ جتوئی نے نیشنل پیپلز پارٹی بنائی۔ اور ممتاز بھٹو اور حفیظ پیرزادہ وغیرہ نے سندھی، بلوچ پختون فرنٹ وغیرہ۔

آگے چل کر یہ فارمولہ نواز شریف اور آصف علی زرداری کے لیے بھی وقتاً فوقتاً مارکیٹ میں آتا رہا اور اس کو آزمانے کی کوششیں ہوتی رہیں، لہٰذا یہ ایک ناکام آزمودہ نسخہ ہے۔

تیسرا آپشن خالصتاً آپریشن ہے۔ ایم کیو ایم کے معاملے میں یہ نسخہ دو مرتبہ آزمایا جاچکا ہے۔ 90 کے عشرے میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو دور حکومت میں دو آپریشن ہوئے۔ نیتجہ ایم کیو ایم کے فائدے میں ہی رہا۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق ایم کیو ایم کے اندرونی اختلافات یا گروہ بندی کو استعمال کر کے لیڈرشپ ہائی جیک کرنے کا فارمولا بھی خارج از امکان نہیں۔ ویسے ممکن ہے کہ وقتی طور پر اس کا کوئی سیاسی فائدہ ہو، لیکن یہ طویل مدت کا حل نہیں۔ ایسا تجربہ نوے کے عشرے میں ایم کیو ایم حقیقی بنا کر کیا جا چکا ہے۔

پھانسی کے مجرم صولت مرزا کے اعترافات کا جائزہ لینے سے بعض دیگر پہلوؤں پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ انہوں نے گورنر سندھ عشرت العباد کو بھی ملوث کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے بعد گورنر راج اور گورنر تبدیلی کی افواہیں بھی پھیلیں جس سے یہ تاثر لیا جارہا ہے کہ سندھ میں گورنر تبدیل کیا جارہا ہے ۔

آخر اس تذبذب کا حل کیا ہے؟ بہت ہی سمجھداری سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو ایم کیو ایم کے رول کو تبدیل کرنے کے لیے سیاسی طریقہ ہی اپنانا پڑے گا۔

حل صرف اور صرف سیاسی عمل ہے۔ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات اس حل کا اہم اور بڑا حصہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اسٹیبلشمنٹ کراچی کا مسئلہ حل کرنا چاہ رہی ہے؟ کیا اسٹیبلشمنٹ ایم کیو ایم کو سیاسی پارٹی کی حد تک رکھنا چاہتی ہے؟ اگر اسٹیبلشمنٹ واقعی ایم کیو ایم کی ڈاؤن سائیزنگ کرنا چاہتی تھی تو اس نے انتخابات کے وقت کیوں نہیں کیا؟ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے ذریعے یہ ممکن تھا تو پھر اس وقت موقع سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اس وقت یہ سب کچھ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

ماضی قریب کے دو عام انتخابات یعنی 2008 اور 2013 میں اس کی ڈاؤن سائیزنگ خود ووٹروں اور عام لوگوں کے ہاتھوں ہوسکتی تھی، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ میڈیا میں رپورٹ ہو چکا ہے اور ان واقعات کے چشم دید گواہ تاحال بقید حیات ہیں کہ 2008 میں ایم کیو ایم کراچی سے قومی اسمبلی کی کم از کم تین نشستیں ہار رہی تھی۔ اس تمام قصے میں 2008 سے لے کر 2015 تک پیپلزپارٹی کا رویہ غیر یقینی رہا ہے جس کا فائدہ پیپلزپارٹی کو نہیں بلکہ ایم کیو ایم کو ہی ملتا رہا۔

خلاصہ یہ ہے کہ خود سے سب کچھ کرنے کے بجائے لوگوں کو حق دیا جائے کہ وہ اپنی آزادانہ رائے کا اظہار کریں۔ آزادانہ سیاسی عمل کو فروغ دیا جائے تو خود ہی بہت سارے معاملات حل ہو سکتے ہیں، لیکن کسی معاملے پر اثر انداز ہونے کی کوشش صرف معاملے کو مزید خراب ہی کرے گی۔

کیا اسٹیبلشمنٹ کراچی کے شہریوں کے لیے یہ حق یقینی بنا سکتی ہے؟

سہیل سانگی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔