پاکستان

اسٹیٹ بینک میوزیم: وہ خزانہ جسے وقت نے فراموش کردیا

یہ عمارت الگ تھلگ کھڑی ہے اور باہری دنیا سے سراہے جانے کی منتظر ہے اور چاہتی ہے کہ اندر موجود تاریخ کو دیکھا جائے۔

اسٹیٹ بینک میوزیم: وہ خزانہ جسے وقت نے فراموش کردیا

یمنیٰ رفیع


بھورے پتھروں سے بنی اسٹیٹ بینک میوزیم کی عمارت سربلند مگر تنہا کھڑی ہے جو کہ برطانوی راج کی ان چند یادگاروں میں سے ایک ہے جو اب بھی آئی آئی چندریگر روڈ پر بلند و بالا عمارات کے درمیان جوں کی توں موجود ہے۔

یہ میوزیم کبھی امپرئیل بینک آف انڈیا کی بلڈنگ تھا مگر اب یہ برصغیر کے آثار قدیمہ کے خزانے کا گھر ہے، مگر یہاں موجود تاریخی نگینوں کو اب تک متعدد افراد نے نہیں دیکھا ہوا۔

یہ عمارت الگ تھلگ کھڑی ہے اور باہری دنیا سے سراہے جانے کی منتظر ہے اور چاہتی ہے کہ اندر موجود تاریخ کو دیکھا جائے۔

تاریخی آثار کا تعارف

میزنائن فلور سے داخل ہونے کے بعد یہ مقام گزرے زمانوں کے ایک دلفریب سفر کی پیشکش کرتا ہے، یہاں آپ برصغیر میں استعمال کیے جانے والے سکوں اور روپوں کی ابتدائی اشکال کو تلاش کرسکتے ہیں، سکندر اعظم کے عہد میں جاری کردہ سکے، دوسری جنگ عظیم میں استعمال ہونے والی کرنسی کے ساتھ ساتھ یہاں صادقین کی نقاشی کا سب سے بڑا ذخیرہ بھی یکھا جاسکتا ہے۔

یہاں لگے نودرات پر تحقیق پر چھ سال کا عرصہ لگا اور یہ جان کر حیرت کا جھٹکا لگتا ہے کہ اتنے تاریخی خزانے بہت کم لوگوں کو اپنی جانب کھینچ سکے۔

جاہ و جلال سے بھرپور سکے

زمانہ قدیم کی باقیات کے دورے کا آغاز سکوں کی شاندار کلیکشن سے ہوتا ہے جو یہاں اس زمانے کے بھی ہیں جب چاندی کے ناہموار شکل کے سکے چلتے تھے، ان کا وزن یکساں ہوتا تھا اور ان پر کندہ کاری بہت سادہ مگر علامتی تصورات یعنی جانوروں سے لے کر فطرت کے مختلف عناصر پر مشتمل ہوتی تھی۔

ہمں بتایا کہ برصغیر میں کرنسی کی پہلی شکل کی دریافت پانچویں صدی قبل مسیح میں ہوئی تھی۔

وہاں سے آگے بڑھے تو تین سو قبل مسیح میں سکندر اعظم نے برصغیر پر دھاوا بولا تھا اور اس دور کے سکوں کی شکل میں تبدیلی واضح ہے، ان کے ڈیزائن میں یونانی دیوتاﺅں اور وجہ شہرت کی کہانیوں کا اظہار ہوتا ہے۔

ان سکوں میں یونانی دیومالا کی شخصیات کو بھی پیش کیا گیا ہے جیسے ہرکولیس کا سر سکے کے سامنے جبکہ یونانی دیوتا زیوس پیچھے کی جانب کندہ ہے اور بیشتر سکے ان دونوں کے نقوش پر ہی مشتمل ہیں۔

کچھ تاریخ دانوں نے زور دیا ہے کہ ہرکولیس کی تصویر درحقیقت سکندر کی اپنی ہے تاہم اس حوالے سے کوئی قائل کردینے والے شواہد موجود نہیں۔

معمول کی کرنسیوں کے ساتھ ساتھ یہاں سکندر کی جانب سے بادشاہ پورس کے خلاف ' جہلم کی عظیم جنگ' میں کامیابی کے بعد جاری ہونے والے نایاب یادگاری سکے بھی میوزیم کا حصہ ہیں جو کہ بادشاہ کی سب سے بڑی جنگ کی یادگار ہیں۔

میوزیم کے آثار قدیمہ کے رجسٹرار تنویر افضل وضاحت کرتے ہیں " ایک حکمران اسی وقت طاقتور تصور کیا جاتا ہے جب وہ ایک سکے کا اجراءکرتا ہے، یہ بادشاہ کی شان و شوکت کا واضح اظہار ہوتے ہیں"۔

یونانی تہذیب اور سکندر کے بعد برصغیر میں آنے والے حکمرانوں کے آثار یا نشانیوں کو اسٹیٹ بینک میوزیم میں سکوں کی شکل میں محفوظ کرلیا گیا ہے۔

یہ نظر آتا ہے کہ دھات کے ان چھوٹے ٹکڑوں کی مالیاتی قدر یا ویلیو نہیں بلکہ یہ اس عہد کے عقائد اور ثقافت کو بھی آگے منتقل کرتے ہیں، صدیوں سے یہ سکے جنگجوﺅں، گھوڑوں کی پشت پر بیٹھے بادشاہوں، دیوتاﺅں اور خدا کی الوہیت کا نقشہ کھینچ رہے ہیں۔

مغلوں کی آمد کے بعد یہاں کی تہذیب میں نمایاں تبدیلی واقع ہوئی، ایک مسلم عہد کا آغاز ہوا اور اس تبدیلی کا اظہار ڈیزائن اور تعمیرات میں بھی نظر آتا ہے۔

اس عہد کے سکوں پر دفاعی آلات نظر نہیں آتے، نہ ہی گھوڑے یا بادشاہوں کے چہرے دیکھے جاسکتے ہیں، بلکہ ان کی جگہ فارسی خطاطی نے غلبہ پالیا۔

تمام مغل شہنشاﺅں میں اکبر کے عہد کے سکے اپنے ڈیزائن کی بدولت سب سے الگ نظر آتے ہیں۔

اکبر کے سکے گول اور چوکور دونوں طرح کے ہیں جس کے اوپر عام طور پر کلمہ تحریر ہے اور پشت کی جانب " جلال الدین محمد اکبر" لکھا نظر آتا ہے۔

تنویر افضل بتاتے ہیں " اکبر کے دور حکمرانی میں سامنے آنے والے سکے تنوع کے حامل ہیں اور انہیں بہت اچھی طرح ریفائن کیا گیا ہے، اکبر نے اپنے مذہب دین الہیٰ متعارف کرانے کے بعد خصوصی سکے بھی متعارف کرائے تھے"۔

ان دین الہیٰ سکوں پر " اللہ اکبر" پڑھا جاسکتا ہے۔

سب سے کم قیمت سکے کو " دام" کہا جاتا تھا اور جب میوزیم رجسٹرار نے ہمیں اس کی ویلیو کے بارے میں بتایا تو وہ کافی حیران کن تھی " ایک دام کے بدلے میں اس عہد میں بیس کلو گرام تک خام میٹریل خریدا جاسکتا تھا"۔

جب ہم نے مزید تجسس کیا تو ہمیں چند ایسے حقائق سامنے آئے جن کا ہم نے کبھی تصور تک نہیں کیا تھا۔

برصغیر میں موجودہ عہد میں استعمال ہونے والے " روپے" کی اصطلاح شیر شاہ سوری کے "روپیہ" سے اخذ کی گئی جو کہ چاند کے سکے کے لیے استعمال ہونے والی سنسکرت اصلاح ہے۔

اس سے زیادہ دلچسپ امر یہ ہے کہ شیرشاہ سوری کے عہد میں جاری ہونے والا سکہ مکمل گول ہے جس کے ایک طرف ستارہ داﺅدی کندہ ہوا ہے۔

تنویر افضل بتاتے ہیں " شیرشاہ سوری ایک تاجر وہ چکے تھے، تو ہوسکتا ہے کہ اس علامت کا اضافہ ملک کے ساتھ یکجہتی کے لیے کیا گیا ہو"۔

ایک اور خاص سکہ نورجہاں کے نام سے سجا ہوا ہے جو کہ واحد مغل ملکہ ہے جس کا نام چاندی کے سکوں پر کندہ گیا۔

مغل عہد کے اختتام پر برصغیر میں سکوں کا دور پھر بدل گیا اور اس میں کافی تنوع آیا، ایسٹ انڈیا کمپنی کی جانب سے برطانوی حکمرانوں کے پورٹریٹ استعمال کیے جاتے تھے، سکھوں کے سکوں میں گرو نانک چھائے ہوئے تھے جبکہ ٹیپو سلطان کی ریاست میں ہاتھیوں کو سکوں پر کندہ کیا گیا تھا۔

صادقین کے فن کا سب سے بڑا ذخیرہ

میوزیم کا میزنائن فلور صادقین کے چار شاندار دیواری نقاشی کے نمونوں سے بھرا ہوا ہے جو اسے اس معروف آرٹسٹ کے کام کی سب سے بڑی کلیکشن بناتے ہیں۔

صادقین کی خطاطی کے نمونے، گیلری کے ایک چھوٹے کمرے میں ان کی زندگی کی جھلکیاں، ان کے فنی کام کی سمری کی نمائش کے ساتھ ساتھ ان کے اپنے ہاتھ سے لکھے پیغامات سب یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

دیواری نقاشی کا ایک نمونہ ' وقت کا خزانہ' ایسا ہے جسے نظرانداز کرنا مشکل ہے، یہ 60 بائی 8 کے عظیم کینوس میں تیار کیا گیا جس میں ان 46 مفکرین کو پیش کیا گیا ہے جو متعدد برسوں سے دنیا پر اپنا اثر برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ریاضی دانوں، سائنسدانوں اور فلسفیوں میں صادقین نے اپنی پورٹریٹ بھی شامل کررکھی ہے۔

صادقین دیگر نقاشی کے نمونوں ' صنعت اور زراعت اول و دوئم' میں کاشتکار اور ایک صنعتی ورکر کے درمیان ہم آہنگی کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔

گیلری کا ایک اور کمرہ نوجوان ہم عصر فنکاروں کے نام کیا گیا ہے جہاں ان کا کام بغیر کسی معاوضے کے نمائش کے لیے رکھا جاتا ہے۔

پینٹنگ اینڈ گیلری آفیسر محمد زبیر بتاتے ہیں " یہ گیلری مکمل طور پر ان فنکاروں کے لیے ہے جو اپنا کام عوام کے سامنے لانا چاہتے ہیں، کوئی بھی فنکار ہم سے رابطہ کرسکتا ہے"۔

ملک میں ثقافت کے تباہ ہوتے منظرنامے میں یہ میوزیم ملکی نوادرات کے تحفظ کے لیے کھڑا ہے، برصغیر کے خزانے کا گہرائی میں جاکر جائزہ لینے کے خواہشمند افراد کے لیے یہاں جانا کافی فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔

تو آخر کیوں کسی کو اسٹیٹ بینک میوزیم میں رکھے عجائب کے بارے میں معلوم نہیں۔

اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ حقیقت ہوسکتی ہے کہ چونکہ یہ ایک حکومتی میوزیم ہے اس لیے بیشتر افراد کے اندر یہ غلط تصور ہوسکتا ہے کہ ' ممکنہ طور پر یہاں کچھ بھی دلچسپ نہیں ہوگا'، تاہم اسٹیٹ بینک کی ڈائریکٹر ڈاکٹر عاصمہ ابراہیم کے مطابق مسئلہ بہت سادہ ہوسکتا ہے اور وہ ہے پارکنگ کی جگہ کی کمی جو کہ میوزیم میں آنے والوں کے لیے تو کیا بینک کے عملے کے لیے بھی بڑا درد سر ہے۔

ایک دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ میوزیم اتوار کو نہیں کھلتا۔

ڈاکٹر عاصمہ بتاتی ہیں " اگرچہ میں اپنی پوری کوشش کرتی ہوں تاہم ملک میں ہر جگہ ثقافتی ورثے کا تحفظ بہت مشکل ہے، توقع ہے کہ ہمارے ملک کے اچھے دن آئیں گے، میں اس حوالے سے کافی پرامید ہوں"۔


تصاویر : محمد عمر