نقطہ نظر

ہم کس حادثے کے منتظر ہیں؟

غیر معیاری سی این جی سلینڈرز سے اب تک کئی ہلاکتیں ہو چکی ہیں لیکن یہ اب بھی استعمال ہو رہے ہیں۔

ہم اکثر سنتے ہیں کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سی این جی کے استعمال پر پابندی ہوگی جبکہ شہر میں اکثر سی این جی فلنگ اسٹیشنز پر جلی حروف میں لکھا نظر آتا ہے کہ بڑی گاڑیوں یعنی بسوں، منی بسوں اور کوچز میں سی این جی نہیں ڈالی جائے گی۔ لیکن اسی تحریر لکھے اسٹیشنوں پر ہی ان بڑی گاڑیوں میں سی این جی ڈالی جارہی ہوتی ہے۔

ان سی این جی سلینڈروں کی وجہ سے کئی افراد کی اموات ہو چکی ہیں، اور وطنِ عزیز میں اب یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ٹریفک حادثے دنیا بھر میں ہوا کرتے ہیں، لیکن ایک تو ملک پاکستان میں خراب سڑکوں کی وجہ سے ویسے ہی زیادہ حادثے ہوتے ہیں، اور اس کے بعد زیادہ نقصان حادثے کے بعد سی این جی سیلنڈرز کے پھٹنے اور آگ بھڑکنے سے ہوتا ہے، جیسا کہ حال ہی میں نوری آباد میں ہونے والے حادثے، اور اس جیسے کئی دیگر وین حادثوں میں ہوا۔

فروری 2013 میں گجرات میں ایک اسکول وین میں سی این جی سلینڈر پھٹنے سے ٹیچر سمیت 17 بچے ہلاک ہوگئے تھے۔ کراچی میں برنس روڈ پر اسکول وین میں سلینڈر میں دھماکے سے وین ڈرائیور ہلاک ہوا۔ جانی نقصان اور بھی زیادہ ہوتا لیکن خوش قسمتی سے اس وقت بچے وین میں نہیں تھے۔ اس طرح کے متعدد واقعات ہوچکے ہیں اور ہو رہے ہیں جن کی وجہ ان سلینڈروں کا ناقص معیار ہے، جس کی جانچ پڑتال نہیں کرائی جاتی اور غیر معیاری سلینڈر، جن میں آکسیجن سلینڈر بھی شامل ہیں، کا استعمال بلا روک ٹوک کیا جاتا ہے۔

دنیا کے ہر ملک میں جہاں سی این جی استعمال کی جاتی ہے، وہاں حادثات سے بچنے کے لیے ان سلینڈروں کی ہر سال جانچ پڑتال کی جاتی ہے، لیکن ہمارے ہاں اس بات کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ پاکستان دنیا بھر میں سب سے زیادہ سی این جی استعمال کرنے والے ممالک میں سے ہے، جہاں تقریباً 29 لاکھ گاڑیاں سی این جی پر چلتی ہیں۔

گاڑیوں کے زیادہ تر مالکان سی این جی سلینڈر تو لگوا لیتے ہیں، لیکن ان کی باقاعدہ چیکنگ کروانا اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے۔ کہنے کو تو ہر سی این جی اسٹیشن پر ہائیڈروکاربن ڈویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ آف پاکستان کی جانب نوٹس لگا ہوتا ہے کہ بغیر ٹیسٹ کیے گئے سلینڈر میں سی این جی نہیں بھری جا سکتی۔ لیکن پڑھنے والوں سے میرا سوال ہے کہ کیا کبھی کسی نے آپ کی گاڑی میں سی این جی بھرنے سے پہلے چیک کرنے کی زحمت کی ہے؟

پڑھیے: سلینڈر دھماکے اور عوام کی ذمہ داری

جواب یقیناً 'نا' میں ہوگا۔

تو کیا آپ اس کا مطلب سمجھے؟ 29 لاکھ سلینڈروں میں سے مان لیں کہ اگر چوتھائی بھی فٹنس پر پورے نہیں اترتے، یا غیر معیاری ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کی سڑکوں پر 7.25 لاکھ بم دوڑتے پھر رہے ہیں۔ یہ فرضی تعداد ہے، جبکہ حقیقت شاید اس سے کہیں زیادہ ہو۔ اور اگر اس سے کم بھی ہو، تب بھی کیا اتنی بڑی تعداد میں عوامی حفاظت کے لیے خطرہ بننے والی چیز کو چلنے کی اجازت دینے کو جرم کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے؟

کئی منی بس اور کوچز میں سی این جی کے اضافی گیس سلینڈر بھی موجود ہوتے ہیں جو ان کی چھتوں پر رکھے ہوتے ہیں اور یہ ان دنوں میں کام آتے ہیں جب سی این جی کی بندش دو تین دن تک ہوتی ہے۔ کبھی کبھی تو چلتی ہوئی گاڑی میں ہی اسے چھت نیچے لا کر انجن کے پاس لیڈیز سائیڈ میں رکھ کر استمال کیا جاتا ہے جو کہ ایک بہت ہی خطرناک عمل ہے۔ کئی کنڈیکٹر اور ڈرائیور حضرات اس دوران سگریٹ نوشی بھی کر رہے ہوتے ہیں اور دورانِ سفر اضافی سلینڈر کو اس صورت حال میں گاڑی سے منسلک کرنا کسی بھی طاقتور بم کو آگ دکھانے کے مترادف ہے۔

پبلک ٹرانسپورٹ کے علاوہ جو وینز بچوں کے اسکولوں میں چلتی ہیں ان میں بھی سی این جی سلینڈر لگے ہیں۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ارباب اختیار مزید کن حادثوں کے منتظر ہیں۔ وہ اتنے بے بس کیوں ہیں کہ اسکول کی وین میں بھی ان سلینڈروں کی ممانعت پر عملدرآمد نہیں کروا پارہے؟ اگر میں یہ کہوں کہ پاکستان میں سی این جی پر ہی پابندی لگادی جائے، تو شاید مناسب یوں نہیں ہوگا کیونکہ سی این جی صرف پبلک ٹرانسپورٹ میں ہی استمال نہیں ہوتی بلکہ پاکستان میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد پرائیوٹ گاڑیوں میں بھی استمعال کرتی ہے جس کی ایک وجہ کم پیسوں میں زیادہ سفر ہوتا ہے۔

لیکن روز بروز بڑھتے ہوئے حادثات کے پیش نظر اسکول وینوں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں اس کے استعمال پر پابندی پر سختی سے عملدرآمد کروا کر کئی قیمتی جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں نہ ہی حادثات کے ہونے سے پہلے کوئی احتیاطی تدابیر کی جاتی ہیں اور نہ ہی حادثات رونما ہونے کے بعد۔ ارباب اختیار کو بھی معلوم ہے کہ یہ قوم اب اس قسم کے حادثوں کی عادی ہوچکی ہے، چند دن کے بعد خود ہی بھول جائے گی یا پھر کوئی نیا رونما ہونے والا حادثہ پچھلے حادثے کا اثر زائل کردے گا۔

آپ کو یاد ہوگا کہ گذشتہ عید کے موقع پرعوام پر کیا قیامتیں ٹوٹی تھیں۔ ایک تو زہریلی شراب نوشی سے کئی لوگوں کی ہلاکتیں ہوئیں تھی، تو دوسرا کراچی کے سمندر میں درجنوں افراد ڈوب کر جان کی بازی ہار گئے تھے۔ لیکن کیا ہوا؟ آج بھی ایسی شراب کی بھٹیاں موجود ہیں اور لوگ اسی طرح شراب نوشی بھی کر رہے ہیں۔ آج بھی لوگ سمندر میں گہرے پانی میں نہا رہے ہیں جبکہ لائف گارڈز کی تعداد میں بھی اضافہ نہیں ہو سکا ہے۔ لوگ بھی ان واقعات کو بھول چکے اور ارباب اختیار بھی انہیں شہید قرار دے کر اپنے فرض سے بری الزمہ ہوچکے۔ اگر وہ مرنے والے کسی کو یاد ہوں گے تو وہ ان کے لواحقین ہی ہوں گے، باقی کسی کو کیا فرق پڑنا ہے۔

پڑھیے: کس کے ہاتھ پر لہو تلاش کریں؟

مجھے جتنا دکھ ان حادثات کو دیکھ کر ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ دکھ ان حادثات کے بعد رونما ہونے والے واقعات کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ جب گلشن حدید لنک روڈ پر شکارپور جانے والی بس کو حادثہ پیش آیا، تو جب تک امدادی ٹیمیں پہینچیں تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ پوری دنیا میں اگر کوئی ایسا حادثہ ہوتا ہے تو یہی خبریں ہوتی ہیں کہ مختلف امدادی ٹیمیں حادثے کے مقام پر پہنچ کر انسانی جانوں کو بچانے میں مصروف ہیں، لیکن ہمارے ملک میں بدقسمتی سے ہر حادثے کے بعد یہی پتا لگتا ہے کہ لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت امدادی کارروائیاں شروع کردی ہیں، چاہے وہ سی این جی سلینڈر سے لگنے والی آگ ہو یا کوئی بم دھماکہ ہو، یا پھر کسی مارکیٹ، فیکٹری میں لگنے والی آگ ہو۔

حادثے کو حادثہ اسی لیے کہتے ہیں، کیونکہ یہ غیر متوقع ہوتا ہے اور مکمل طور پر اس کا سدِباب نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن کم از کم اتنا تو کیا جا سکتا ہے کہ جو اسباب حادثات کو جنم دیتے ہیں، ان سے نمٹا جائے تاکہ اگر حادثات کا سو فیصد خاتمہ ممکن نہیں، تو کم از کم کچھ حادثے جو صرف غفلت کی وجہ سے ہوتے ہیں انہی سے بچا جا سکے؟

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کسی کو اس کی فکر بھی ہے؟

محمد ارشد قریشی

محمد ارشد قریشی انٹرنیشنل ریڈیو لسنرز کلب کراچی کے صدر ہیں، اور سماجی مسائل پر لکھتے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: Maq_arshad@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔