کیا بنگلہ دیشی پاکستانیوں سے آگے نکل گئے ہیں؟
چاہے ملک میں ہوں یا ملک سے باہر، بنگلہ دیشی پاکستانیوں کو انسانی ترقی و خوشحالی کے ہر معیار میں پیچھے چھوڑتے جارہے ہیں۔
برطانیہ میں ہونے والی حالیہ تحقیقوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بنگلہ دیشی والدین کے بچے پاکستانی والدین کے بچوں کے مقابلے میں بہتر گریڈ حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ میں بنگلہ دیشیوں کی اوسط آمدنی بھی برطانوی پاکستانیوں سے زیادہ ہے۔
پچھلے چالیس سالوں میں نہ صرف بنگلہ دیشی ملک اور ملک سے باہر ترقی میں پاکستان کی سطح تک پہنچ گئے ہیں، بلکہ یہ بھی واضح ہے کہ مستقبل میں ان کی ترقی بڑھے گی ہی۔
پاکستان کے ڈویلپمنٹ پروفیشنلز اور سیاسی قیادت کو یہ سمجھنا ہو گا کہ انسانی ترقی کے معیار پر ہم جن ممالک سے آگے تھے، اب ان سے پیچھے ہوتے جا رہے ہیں۔
چار دہائیوں پہلے سماجی اقتصادی ترقی کے اشاریوں میں پاکستان کئی ایشیائی اور افریقی ممالک سے آگے تھا۔ 70 کی دہائی کے وسط سے پاکستان قدامت پسندی اور مذہبی عسکریت پسندی میں دھنستا گیا، جبکہ دوسرے ممالک نے اعلیٰ تعلیم اور معاشی ترقی کے لیے لبرل پالیسیاں اپنائیں۔
سماجی اور اقتصادی ترجیحات کا ایک یو ٹرن ہی پاکستان کو دوسرے ممالک سے مزید پیچھے رہ جانے سے بچا سکتا ہے۔
دی اکنامسٹ میں شائع ہونے والے حالیہ مضمون میں برطانیہ میں پاکستانی اور بنگلہ دیشی تارکینِ وطن کے درمیان بڑھتی ہوئی ناہمواری کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اسٹینڈرڈائزڈ ٹیسٹوں میں نہ صرف بنگلہ دیشی بچے پاکستانی بچوں سے زیادہ اسکور حاصل کرتے ہیں۔ بلکہ وہ برطانوی بچوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔
حالیہ ڈیٹا سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ برطانیہ میں 61 فیصد بنگلہ دیشی بچوں نے پانچ اچھے GCSE حاصل کیے، جو 16 سالہ طلبا کے لیے ایک سرٹیفیکیشن ہے۔
اس کے مقابلے میں صرف 51 فیصد پاکستانی بچے یہ حاصل کر پائے، جبکہ 56 فیصد کے ساتھ برطانوی بچے بھی بنگلہ دیشیوں سے پیچھے رہے۔
دی اکنامسٹ کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں اوسط بنگلہ دیشی آمدنی بھی پاکستانیوں سے زیادہ ہے۔ مانچسٹر یونیورسٹی کے پروفیسر یاؤجن لی کی تحقیق جس کا اکنامسٹ میں حوالہ دیا گیا ہے، اس بات کا ثبوت ہے کہ برطانیہ میں پاکستانیوں اور بنگلہ دیشیوں کے درمیان فرق بڑھ رہا ہے۔
2012 میں میں نے ڈان ڈاٹ کام کے لیے رپورٹ کی تھی کہ کس طرح پاکستانی کینیڈین باقیوں سے پیچھے ہوتے جا رہے ہیں۔ مردم شماری کے دیٹا کے مطابق کم آمدنی والے گھرانوں میں سب سے زیادہ پاکستانی کینیڈین ہیں۔ برطانیہ میں ہونے والی تحقیق کے مطابق لیبر مارکیٹ میں بھی پاکستانی باقیوں سے پیچھے ہیں۔
ملک اور ملک سے باہر پاکستانیوں میں مقابلے کی کمی کی وجوہات کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔
برطانیہ میں بنگلہ دیشی اور پاکستانی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق برطانیہ میں 4 لاکھ 47 ہزار 201 بنگلہ دیشی جبکہ 11 لاکھ پچیس ہزار پاکستانی آباد تھے۔ دونوں ہی برادریاں ایک ہی جیسی روایات اور عادات و اطوار رکھتی ہیں، لیکن ایک دوسرے سے مختلف بھی ہیں۔
دونوں ہی برادریاں مخصوص صنعتوں سے وابستہ ہیں؛ پاکستانی ٹیکسی کیبز میں اور بنگلہ دیشی ریسٹورنٹس میں۔ دونوں ہی ممالک کے تارکینِ وطن دیہاتی یا چھوٹے شہروں کے رہنے والے ہیں۔ پاکستانی تارکینِ وطن کی سب سے بڑی تعداد میرپور آزاد کشمیر سے تعلق رکھتی ہے جبکہ بنگلہ دیشیوں کی سلہٹ سے۔
پڑھیے: کینیڈین انتخابات اور پاکستانی عزت کا جنازہ
پاکستانی تارکینِ وطن 60 کی دہائی میں آئے اور ٹیکسٹائل سیکٹر میں نوکریاں تلاش کرتے ہوئے برطانیہ بھر میں مقیم ہوئے۔ دوسری جانب جب بنگلہ دیشی تارکینِ وطن 1980 کی دہائی میں بڑی تعداد میں آنا شروع ہوئے، تو ٹیکسٹائل سیکٹر تنزلی کا شکار تھا۔
یہ بنگلہ دیشی تارکینِ وطن کے لیے ایک رحمت کی طرح تھا۔ وہ لندن اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں سیٹل ہونے لگے جہاں اسکولوں اور ٹیچروں کی کوالٹی شمالی علاقوں کے خستہ حال چھوٹے شہروں سے بہتر ہے جہاں پاکستانی رہتے تھے۔
بنگلہ دیشیوں کے لندن میں سیٹل ہونے نے انہیں مضبوط روابط قائم کرنے میں مدد دی جس کی وجہ سے برادری کی جڑیں مضبوط ہوتی گئیں۔ پاکستانیوں کے ساتھ ایسا نہیں تھا کیونکہ ان کی کمیونیٹیز ہر طرف پھیلی ہوئی تھیں۔
کہنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ بنگلہ دیشیوں کو سب کچھ بنا بنایا ملا۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد برطانیہ میں گھروں کی مالک ہے۔ دوسری جانب بنگلہ دیشیوں کی ایک تہائی تعداد سوشل (سبسڈائزڈ) گھروں میں رہتی ہے۔ اس کے مقابلے میں صرف 18 فیصد برطانوی ہی سوشل ہاؤسنگ اسکیموں میں رہتے ہیں۔ پاکستانیوں کی طرح بنگلہ دیشی خواتین کی بھی بڑی تعداد کام نہیں کرتی، جس کی وجہ سے گھریلو آمدنی اس حساب سے کم رہتی ہے۔
لیکن تعلیم کو اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ترجیح بنا کر بنگلہ دیشی تارکینِ وطن نے درست فیصلہ کیا ہے۔ بنگلہ دیشی اپنی برادری سے باہر دوسری برادریوں سے گھلنے ملنے میں بھی پاکستانیوں سے بہتر ہیں۔ تحقیق کے مطابق بنگلہ دیشیوں کے دوسری برادریوں سے دوستی کرنے کے امکانات پاکستانیوں سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ میں پاکستانیوں کے مقابلے میں بنگلہ دیشیوں کی بہت ہی کم تعداد قریبی دوستوں کی کمی کی شکایت کرتی نظر آتی ہے۔
برطانیہ میں پاکستانی تارکینِ وطن بدلتے وقتوں کے ساتھ خود کو نہیں ڈھال پا رہے۔
پاکستانیوں کی بڑی تعداد اپنے ملک واپس آ کر شادیاں کرتی ہے۔ مثال کے طور پر بریڈفورڈ میں پاکستانی تارکینِ وطن کی بڑی تعداد تارکینِ وطن کی پہلی نسل ہے۔
11 لاکھ نفوس پر مشتمل برادری جو 50 سالوں سے برطانیہ کو اپنا مسکن بنائے ہوئے ہے، اب اس میں تارکینِ وطن کی دوسری اور تیسری نسل ہونی چاہیے تھی۔ اس کے بجائے پاکستان سے نئے تارکینِ وطن اب بھی آ رہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی برادری خود کو تعلیم یافتہ، تجربہ کار بنانے اور بہتر روابط قائم کرنے میں ناکام ہے۔
برطانیہ میں بنگہ دیشیوں نے نالج اکنامی میں حصہ لینے کی زبردست حکمتِ عملی اپنا رکھی ہے۔ وہ جدید معاشی علاقوں کے آس پاس بستے ہیں اور اپنے بچوں کی تعلیم میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ ملک اور ملک سے باہر پاکستانیوں کو اس بات کا نوٹس لینا چاہیے۔
مرتضیٰ حیدر ٹورنٹو میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، اور regionomics.com کے ڈائریکٹر ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: regionomics@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔