پاکستان

اردو زبان کی عہدساز شاعرہ ادا جعفری انتقال کرگئیں

ادا جعفری کی رہنمائی و پیش قدمی نے نئی نسل کو حوصلہ دیا، بلاشبہ ان کا مقام اردو شاعری میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

کراچی: اردو زبان کی معروف شاعرہ اداجعفری طویل علالت کے بعد یہاں جمعرات کو نوّے برس کی عمر میں انتقال کرگئیں۔

ادا جعفری کی پیدائش 22 اگست 1924ء کو بدایوں شہر میں ہوئی۔ والدین نے ان کا نام عزیز جہاں رکھا۔ ان کی عمر تین سال کی تھی کہ ان کے والد مولوی بدرالحسن کا انتقال ہو گیا۔ ادا جعفری نے تیرہ برس کی عمر میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔وہ ادا بدایونی کے نام سے شعر کہتی تھیں۔

ان کی پرورش ننھیال میں ہوئی۔ اد ا کا ننھیال ایک قلعہ نما حویلی میں رہائش پذیر تھا۔ اس ایک گھرمیں کئی گھر آباد تھے بڑی حویلی چھوٹی حویلی دیوان خانہ اور نانا کی کوٹھی۔ یہ گھرانا ٹونک والا خاندان کے نام سے جانا جاتاتھا اس خاندان کا ایک رواج تھا کہ ان کی بیٹیاں بیاہ کر سسرال نہیں بھیجی جاتی تھیں۔ ادا کے والد کانپور میں رہائش پذیر تھے۔ جہاں ان کی ملازمت تھی اور ان کی والدہ نانا کی کوٹھی میں اپنی تین بیٹیوں کے ہمراہ شہر بدایوں میں مقیم رہیں۔

بدایوں شہر علم پسندوں کی ایک پرکشش بستی تھی۔ یہ شہر حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کی جائے پیدائش اور بہت سے صوفیائے کرام اور روحانی ہستیوں کی آخری آرام گاہ ہے۔

ادا جعفری کی شخصیت میں کتابوں بچوں اور مظاہر فطرت سے محبت اور قربت کا احساس بچپن ہی سے شامل رہا ہے۔ زندگی کی انہیں خوشیوں کو ترتیب دے کر وہ اپنے اداس دل کے بہلاوے کی صورتیں پیدا کر لیتی تھیں۔ ابتدا میں انہوں نے کاغذ اور قلم تھام کر ہر گزرنے والے لمحے کا حساب درج کرنا شروع کر دیا وہ بڑی باقاعدگی سے روزنامچہ لکھا کرتی تھیں۔ اپنی ڈائری میں اپنے روز و شب کا احوال لکھتے ہوئے وہ اپنے جذبوں کی کہانیاں رقم کیا کرتی تھیں۔ یہ ڈائری اگر آج دستیاب ہوتی تو اندازہ کیا جاسکتا تھا کہ وہ ابتدائی زندگی میں وہ کن کن جذبات و احساسات سے دوچار رہی تھیں۔ مگر 1947ء کے فسادات میں یہ ڈائری کہیں گم ہو گئی اور یوں ادا جعفری کے اظہار کے اولین مراحل سے شناسائی کا ایک در ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔

ادا کی شادی 1947ء میں نور الحسن جعفری سے انجام پائی شادی کے بعد ادا جعفری کے نام سے لکھنے لگیں۔ ادا جعفری عموماً اختر شیرانی اور اثر لکھنوی سے اصلاح لیتی رہی ۔ ان کے شعری مجموعہ شہر درد کو 1968ء میں آدم جی ایوارڈ ملا۔ شاعری کے بہت سے مجموعہ جات کے علاوہ ’’جو رہی سو بے خبری رہی ‘‘ کے نام سے اپنی خود نوشت سوانح عمری بھی 1995ء میں لکھی۔ 1991ء میں حکومت پاکستان نے ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغا امتیاز سے نوازا۔

ادا جعفری کے شعری سفر کا آغاز ترقی پسند تحریک کے عروج کے وقت ہوا۔ اس وقت دوسری جنگ عظیم کی ہنگامہ خیز فضا اور پاک و ہند کی تحریک آزادی کا پر آشوب ماحول تھا۔ یہ فضا بیسویں صدی کی پانچویں دہائی یعنی 1940ء اور 1950ء کے درمیانی عرصے سے خاص تعلق رکھتی ہے۔ یہ دہائی سیاسی اور سماجی اور شعری و ادبی ، ہر لحاظ سے پر شعور و ہنگامہ خیز دہائی تھی۔ تاج برطانیہ ہندوستان سے اپنا بستر بوریا سمیٹ رہا تھا اور نئی بساط سیاست بچھ رہی تھی۔ پاکستان اور ہندوستان کے نام سے دو آزاد مملکتیں وجود میں آئیں۔ ایسے حالات میں ان کی شاعری دلوں پر اثر کرتی تھی اور ضمیر کو جھنجھوڑ دیتی تھی۔

ادا جعفری کا شمار بہ اعتبار طویل مشق سخن اور ریاضت فن کے صف اول میں ہوتا ہے۔ انہوں نے جو کچھ کہا شعور حیات اور دل آویزیٔ فن کے سائے میں کہا۔ فکرو جذبے کے اس ارتعاش کی بدولت ان کا ہر شعر ان کی شناخت کراتا ہے۔

مرحومہ ادا جعفری نے جاپانی صنف سخن ہائیکو پر بھی طبع آزمائی کی۔ ان کی ہائیکو کا مجموعہ ”ساز سخن “ شائع ہو چکا ہے۔ اس میں بھی ادا جعفری نے کائنات کو موضوع بنایا اور کامیابی سے اردو ہائیکو کہی۔ ان کی رہنمائی و پیش قدمی نے آنے والی نسل کو حوصلہ دیا اور نئی منزلوں کا پتہ بتایا بلاشبہ ادا جعفری کا مقام اردو شاعری میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

ان کی تصانیف میں ’’حرف شناسائی‘‘، ”ساز سخن بہانہ ہے‘‘، ”سفر باقی ہے‘‘، ”شہر در‘‘، ’’غزالاں تم تو واقف ہو‘‘ اور ’’میں ساز ڈھونڈتی رہی‘‘ شامل ہیں۔

ان کی لاجواب غزلوں میں سے ایک ’ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام بھی آئے‘ کو شہرتِ دوام حاصل ہوئی، اس غزل مقبولِ عام بنانے کا سہرا استاد امانت علی خان کی گائیکی کو بھی جاتا ہے، جسے انہوں نے اس کمال خوبصورتی سے گایا کہ اس کا ہر مصرعہ اپنے تمام رنگوں کے ساتھ امر ہوگیا۔

انجمن ترقی اردو پاکستان کے زیر اہتمام 1987ء میں شائع ہونے والی کتاب ’’غزل نما‘‘ کو ان کے نثری اظہار کا بےمثل نمونہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ کتاب اردو غزل کے قدیم اساتذہ کے مختصر حالات زندگی اور انتخاب کلام پر مشتمل مضامین کا مجموعہ ہے جو انجمن ترقی اردو کے ماہنامے قومی زبان کے لیے قلم بند کیے گئے تھے اور دسمبر1983ء سے ہر ماہ تواتر کے ساتھ 137اشاعتوں تک شائع ہوتے رہے۔

قدیم غزل گو شعراء کے حالات زندگی کے بنیادی نکات رقم کرتے ہوئے اور ان کے نمونہ ہائے کلام کو منتخب کرتے ہوئے ادا جعفری نے بحیثیت ایک تخلیق کار اور شاعرہ، جن معیارات کو پیش نظر رکھا ہے اس سے خود ان کے ذوق شعری کا اندازہ ہوتا ہے۔

جولائی 1995ء میں شائع ہونے والی ادا جعفری کی خود نوشت ’’جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ اک ایسی تحریر ہے جو اردو زبان میں معیاری نثر کی تازہ تر لطافتوں اور دلکشی کے ساتھ سپرد قلم کی گئی ہے۔ اور ایک خاص زمانے کی تہذیب، طرز فکر اور طرز معاشرت کی عکاس ہے۔ تقسیم ہند سے قبل کے مسلمان معاشرے کی دیرینہ روایات کے ساتھ پروان چڑھنے والی ادا جعفری سفر در سفر، مختلف معاشروں کے تنوع اور رنگا رنگی کا مشاہدہ کرتے ہوئے زندگی کی حرارتیں کشید کرتی رہی ہیں۔ اس کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی کے تجربات نے کس کس طرح ان کی شاعرانہ حسیت کی تشکیل کی۔

ادا جعفری نے بحیثیت ایک نسوانی وجود، جن دو متضاد زمانوں کو دیکھا، برتا اور جھیلا ہے ان کے کئی اہم تجربات کو بہت سی تفصیلات اور جزئیات کے ساتھ اپنے قارئین تک پہنچانے کی کوشش کی۔

مرحومہ ادا جعفری کو پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کی جانب سے بابائے اردو ایوارڈ سمیت کئی ایوارڈز سے نواز ا گیا۔