پاکستان

نائن زیرو چھاپے کے بعد

ورکرزنے کسی کو فون کرکے ہماری شیڈول ملاقات کی تصدیق کے بعد جانے دیا یہاں گلیاں خاموش اور سرگرمیوں سے محروم تھیں۔

ہر صبح کراچی کی شاہراہیں شدید ٹریفک سے بھری ہوتی ہیں، فٹ پاتھوں پر لوگوں کی بھیڑ ہوتی ہے، وینز بچوں کو ان کے اسکولوں پر اتارنے کے لیے خوفناک انداز سے چل رہی ہوتی ہیں مگر جمعرات کو صبح دس بج چکے تھے اور گلیاں صحرا کا منظر پیش کررہی تھیں۔

بیشتر دکانوں کے شٹر گرے ہوئے تھے، اسکول بند تھے، ہم نے عام شاہراﺅں پر سفر کیا تھا اور بہت کم تعداد میں ہی گاڑیاں دیکھ سکے تھے۔

ہم اس وقت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے عزیز آباد میں واقع صدر دفترکی جانب جارہے تھے، جہاں رینجرز کے اہلکاروں نے صرف ایک روز قبل ہی چھاپہ مارا تھا اور متعدد افراد کو گرفتار جبکہ اسلحہ ضبط کیا تھا۔

معروف " مکا چوک" جو کہ کوئلے جیسے سیاہ مکے کے مجسمے سے سجا ہوا ہے جو ایک چورنگی کے اوپر چھایا ہوا ہے، ہمارے نظروں کے سامنے آگیا۔

ہم ایم کیو ایم کے قلعے نائن زیرو پر تھے، سرخ، سبز اور سفید رنگوں سے مزئین ایم کیو یام کے جھنڈے گرد آلود ہوا میں لہرا رہے تھے۔

چورنگی کے دائیں جانب ایک پولیس وین اور سٹی وارڈن کی ایک گاڑی کھڑی تھیں۔ ایک وارڈن بے پروائی سے کھڑا تھا، بائیں جانب نجی ٹی وی چینیل کی ایک سیٹلائٹ وین پارک تھی جہاں تین نوجوان مرنے کی حد تک بیزار تاثرات کے ساتھ کھڑے تھے۔

ہمیں ایک بیرئیر کے سامنے پارٹی ورکرز نے روک لیا جہاں ہم سے ہماری شناخت پوچھی گئی اور گاڑی کو چیک کیا گیا۔

ورکرز نے کسی کو فون کیا اور تصدیق کی کہ ہماری ملاقات شیڈول تھی اور پھر داخلے کی اجازت دے دی، یہاں گلیاں خاموش اور سرگرمیوں سے محروم تھیں۔

ہمیں دوسری رکاوٹ پر روکا گیا جہاں ایک نوجوان ورکر موجود تھا، جس نے ہم سے دوبارہ ہماری شناخت پوچھی اور اس نے بھی کسی سے رابطہ کرکے ہماری ملاقات کی تصدیق کی جس کے بعد داخلے کی اجازت دے دی۔

ہمیں پھر تیسری رکاوٹ پر روکا گیا اور ایک بار پھر وہی عمل دوبارہ دہرایا گیا اور ہمیں اپنی گاڑی پارک کرکے خورشید میموریل ہال یا ایم کیو ایم کے سیکرٹریٹ کی جانب پیدل جانے کا کہا گیا۔

ہم نے ایک گلی کو عبور کیا اور کچھ دیر پیدل چلنے کے بعد ہم چوتھی رکاوٹ پر پہنچے جہاں آنے والوں سے سوالات کے لیے کچھ ورکرز موجود تھے۔

آخرکار ہم سیکرٹریٹ پہنچ گئے اور ہم نے قطار سے لگے پودوں والی گزرگاہ کو عبور کیا اور مزید کچھ فاصلے تک چلنے کے بعد ہلکے گلابی رنگ کی عمارت میں داخل ہوگئے، دائیں جانب متعدد بینچیں تھیں جہاں کچھ افراد موبائل فونز پر بات چیت یا ان پر بیٹھے ہوئے تھے۔

سیڑھیوں پر متحدہ کی ہانپتی ہوئی ایک رکن قومی اسمبلی ثمن جعفری ہم سے ملیں، جو ہمیں انٹرنیشنل پریس کانفرنس روم میں لے گئیں جو کہ بہت بڑا اور متاثرکن تھا۔ ایک دیوار پر دنیا کا نقشہ ٹنگا تھا جبکہ دوسری میں چھ ایل سی ڈی ٹی وی اسکرینیں نظر آرہی تھیں۔

ان سے ذرا اوپر چھ گھڑیوں میں کئی شہروں کا وقت نظر آرہا تھا۔ ایک کونے میں شیشے کی ایک میز تھی جس کے ارگرد آٹھ کرسیاں تھیں۔

ثمن جعفری نے پرجوش انداز سے بتایا " میں نے وقاص کے جسم کو اپنے سامنے گرتے ہوئے دیکھا، رینجرز کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہمارے 24 افراد کو حراست میں لیا جبکہ انہوں نے 106 کو پکڑا، ہمارے لڑکوں کی کمریں سرخ ہورہی تھیں، 2013 میں الطاف بھائی نے فوجی آپریشن کا مطالبہ کیا تھا، ہم طالبان کے خلاف حالت جنگ میں ہے اور کوئی بھی اورنگی نہٰں جاسکتا"۔

ہمیں سی سی ٹی وی روم میں لے جایا گیا جہاں برہم ورکرز نے ہمیں ان سوراخوں کا معائنہ کرایا جنھیں وہ پہلے اپنے ریکارڈ آلات کو رکھنے کے لیے استعمال کرتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ یہ کمرہ گزشتہ روز بری طرح افراتفری کا شکار تھا مگر اب اس کی صفائی کر دی گئی ہے۔

میری درخواست پر ہمیں ان لوگوں سے ملوانے کے لیے لے جایا گیا جو اس وقت بھی یہاں موجود تھے جب نائن زیرو پر 1992 میں فوج نے چھاپہ مارا تھا۔

دوپہر کا وقت وقت تھا جب ہم الطاف حسین کے گھر پہنچے، کچھ بچے ایک تنگ گلی میں بیڈمنٹن کھیل رہے تھے۔

ہم الطاف حسین کے گھر کے باہر تھے جہاں ہماری ملاقات گوہر اور معراج سے ہوئی جنھوں نے ہمیں 1992 کے چھاپے کا احوال سنایا۔

گوہر کے بقول " یہاں دروازے تھے جنھیں فوج نے بلڈوزرز سے گرادیا، وہ حقیقی اور ایجنسیوں کے لوگوں کے ساتھ یہاں کنٹرول سنبھالنے کے ارادے سے آئے تھے"۔

ہمیں گوہر کی آنٹی سے ملوانے کے لیے لے جایا گیا وہ بھی 1992 کے چھاپے کی گواہ تھیں " وہ ہر جمعے کو آتے اور علاقے کو گھیرے میں لے لیتے جس کے دوران کسی کو اندر نہیں آنے دیا جاتا، ہمارے تمام مرد انڈرگراﺅنڈ ہوگئے تھے تو چھوٹے لڑکے بیرئیرز کو سنبھال رہے تھے جبکہ خواتین پارٹی امور کا خیال رکھ رہی تھیں"۔

انہوں نے مزید بتایا " رینجرز کے برعکس فوج نے کبھی ہمارے ساتھ بدتمیزی نہیں کی جبکہ انہوں نے کبھی مردوں کو زمین پر گھٹنوں کے بل نہیں بٹھایا"۔

اس وقت جب ہم واپس جارہے تھے ہم نے ایک سیاہ خیمے کو سڑک پر پڑے ہوئے دیکھا، ایک نوجوان ایک بزرگ کے بازﺅں میں منہ چھپائے زور زور سے رو رہا تھا اور وہ بار بار کہہ رہا تھا " ہم دونوں گزشتہ روز اکھٹے آئے تھے"۔

ہمیں بتایا گیا کہ یہ احسان غوری ہے جو بدھ کو ہلاک ہونے والے وقاص کا بہترین دوست ہے۔

ہم مکا چوک سے نکلے تو ہم نے متعدد مردوں کو وقار کی تدفین میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے دیکھا، اس وقت دوپہر کا ایک بج رہا تھا۔

اس وقت متعدد دکانیں کھل چکی تھیں، پھلوں اور سبزیوں کے ٹھیلے گلیوں میں آچکے تھے اور سڑکوں پر اچھا خاصا ٹریفک چل رہا تھا۔