کیا تعلیم جمہوری حکومت کی ترجیحات میں ہے؟
پاکستان میں جب بھی جمہوریت کی بساط لپیٹی گئی تو نقادوں نے فوج پر کڑی تنقید کی اور آخری بار جب جنرل پرویز مشرف نے مارشل لاء لگایا تو کچھ ہی سالوں میں پرائیوٹ الیکٹرانک میڈیا کا بھی دور شروع ہوا، جس نے فوجی قیادت کو خوب رگڑا لگایا اور بے لاگ تبصرے و تجزیہ پیش کیے گئے۔ میں جمہوریت کا حامی ہوں اور مارشل لاء حکومت کی حمایت نہیں کرتا لیکن تعلیم کے شعبے میں پرویز مشرف دور کے انقلابی منصوبوں کو کوئی بھی ذی شعور پاکستانی نظر انداز نہیں کرسکتا۔
یہ درست ہے کہ جمہوری حکومت کا تختہ الٹنا انتہائی قابلِ مذمت اور غیر آئینی اقدام تھا اور جس کی ایک مہذب معاشرے میں کسی صورت گنجائش نہیں ہے، لیکن مشرف کے تعلیمی اقدامات کے بارے میں کیا کہیں؟ کیا انہیں اس لیے چھوڑ دیں کہ وہ ایک فوجی حکومت نے کیے تھے؟ مشرف دور میں جو تعلیمی اقدامات کیے گئے، وہ پاکستان کی جمہوری سیاسی جماعتیں 65 برسوں میں بھی نہیں کر پائیں۔ 1999ء سے لے کر2007ء کے عرصے میں جو تعلیمی منصوبے بنائے گئے، ان کی بناء پر پاکستان کی اعلیٰ تعلیم کو عالمی سطح پر پہچان ملی اور ہم انہیں منصوبوں کی بنیاد پر نالج اکانومی، یعنی (علمی ذہانت سے ملکی معیشت کو بہتر بنانا) بننے جارہے تھے۔ لیکن ہم انہیں اس کا کریڈٹ دینے سے انکاری ہیں۔
آج مجھے ذاتی طور پر رنج ہے کہ عوام کے منتخب نمائندوں نے مشرف دور کی تعلیمی پالیسیوں کو بھی اپنی ذاتی عناد کی بھینٹ چڑھا دیا۔ 2008ء سے لے کر 2015ء تک جمہوریت کا دور ہے، اور حکومت چاہتی تو اس دور میں تعلیمی شعبے میں انقلابی تبدیلیاں لاسکتی تھی، لیکن سائنس و ٹیکنالوجی اور تحقیق میں حکومت کی دلچسپی ہونا تو درکنار، ایسا لگتا ہے کہ منتخب نمائندے ان دونوں شعبوں کے ساتھ دُشمنی رکھتے ہیں۔ آئیں اس سات سالہ جمہوری دور کا موازنہ مشرف کے دور اقتدار سے کرتے ہیں۔
مشرف نے 2002ء میں ہائر ایجوکیشن کمیشن بنایا اور اس کمیشن کی بناء پر پاکستان کی سرکاری یونیورسٹیوں کے تعلیمی معیار کو بہتر کرنے کا ہدف ڈاکٹر عطاء الرحمن کو سونپا گیا۔ پہلی بار باقاعدہ طور پر یونیورسٹیوں کے لیے ریسرچ گرانٹس، ڈیجیٹل لائبریریوں کا قیام اور پانچ ہزار سے زائد افراد کو غیر ملکیوں جامعات میں پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ مشرف کے دور میں ہی پاکستان میں پانچ بڑے تحقیقی ادارے بنائے گئے جس میں عبد السلام اسکول آف میتھمیٹیکل سائنسز (جی سی یونیورسٹی)، اسکول آف بائیولوجیکل سائنسز (پنجاب یونیورسٹی)، اور اسکول آف فزیکل سائنسز (پنجاب یونیورسٹی) سرفہرست ہیں۔ ان اداروں میں آج عالمی پائے کی تحقیق ہو رہی ہے اور کئی ممالک کے ماہرین ان اداروں میں کام کر رہے ہیں۔
پڑھیے: پاکستانی یونیورسٹیز میں ریسرچ کی حالت زار
پاکستان کو نالج اکانومی بنانے کے لیے مشرف دور میں تحقیق کی بنیاد رکھی گئی، یونیورسٹیوں کے درمیان مقابلے کی فضاء کو فروغ دینے کے لیے درجہ بندی کا میکانزم متعارف کرایا گیا، اساتذہ کی ترقی کو ریسرچ پیپرز کے شائع ہونے کے ساتھ مشروط کیا گیا، حتیٰ کہ اساتذہ کی تنخواہوں میں بھی دوگنا اضافہ کر دیا گیا تاکہ یونیورسٹیوں میں ریسرچ کلچر پروان چڑھے۔ پاکستان کو ان منصوبوں کی بناء پر عالمی سطح پر نئی شناخت ملی۔ پاکستانی ڈگری کی اہمیت بڑھی، معیار بڑھا۔ نالج اکانومی کے منصوبے کی بنیاد پر پاکستان میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے فروغ کا آغاز ہوا۔
اب ذرا جمہوری حکومتوں کی ستم ظریفی دیکھیں۔ 2012ء میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ پر پچیس ارب روپے کی کٹوتی لگائی گئی۔ ایچ ای سی کی پی ایچ ڈی پالیسی کے تحت جو ڈاکٹرز واپس آئے، اُنہیں نوکریاں دینے میں حکومت پس و پیش سے کام لیتی رہی۔ نتیجتاً جس جس اسکالر کو ملک سے باہر کام کرنے کا موقع ملا، وہ چلا گیا اور ملک کئی ذہین دماغوں سے محروم ہوگیا۔ رفتہ رفتہ سائنس اور ٹیکنولاجی پر کیے جانے والا خرچ بھی کم ہوتا گیا اور آج نتیجہ یہ ہے کہ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی تحقیق و ترقی کے فنڈز نہ ہونے کا ماتم کر رہی ہے۔
وزارتِ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ ن کی حکومت قومی پیداوار کا ایک فیصد بھی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر خرچ نہیں کر رہی۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے لیے تین ارب روپے میں سے صرف 59 کروڑ روپے خرچ ہوئے، جبکہ نواز شریف کی حکومت نے 2014ء میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے بجٹ کو تین ارب سے کم کر کے 1.2 ارب روپے کر دیا جس میں سے اب تک صرف 54 کروڑ ہی جاری کیے گئے ہیں۔
موجودہ حکومت نے باقی بجٹ کو سڑکوں کی تعمیر پر ہی خرچ کرنا قومی ترقی کی ضمانت سمجھا۔ مسلم لیگ ن نے اپنے انتخابی منشور میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کی مد میں نینو ٹیکنولاجی، بائیو اینڈ فیول ٹیکنولاجیز کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا تھا، لیکن حکومت میں آنے کے بعد ان ٹیکنولاجیز کی مد میں ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا گیا۔ پاکستان میں کیونکہ سیاسی جماعتیں زیادہ تر وڈیروں، صنعت کاروں اور تاجروں پر مشتمل ہیں، اس لیے انہیں ملک کو نالج اکانومی بنانے کے بجائے کاروبار میں زیادہ دلچسپی رہتی ہے۔ یہ نہیں سوچا جاتا کہ اگر سائنس اور ٹیکنولاجی پر زیادہ کام کیا جائے، تو زراعت اور دیگر کاروبار بھی قدیم تکنیکوں سے کرنے کے بجائے بہتر انداز میں کیے جا سکتے ہیں۔
انڈیا برانڈ ایکویٹی فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر اس وقت 11.3 ارب ڈالرز خرچ کر رہا ہے، جس کا ہدف ملک کو نالج اکانومی کی طرف لے کر جانا ہے۔ سائنسی جریدے نیچر ڈاٹ کام میں چھپنے والے دی پی ایچ ڈی فیکٹری مضمون کی تفصیلات کے مطابق ہمسایہ ملک چین میں ہر سال 50 ہزار افراد سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبے میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں، بھارت میں ہر سال 9 ہزار افراد مختلف ٹیکنالوجیز میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں کر رہے ہیں، یہی رپورٹ منسٹری آف ایجوکیشن آف چائنہ اور دی سروے آف ایرنڈ ڈاکٹریٹ نیشنل سائنس فاؤنڈیشن یو ایس اے کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔
ایران دُنیا بھر میں نینو ٹیکنالوجی کے شعبے میں اپنا نام پیدا کر چکا ہے۔ مشرف دور میں سو سے زائد نئی یونیورسٹیاں کھولی گئیں، تاکہ اعلیٰ تعلیم تک رسائی آسان ہوسکے لیکن جمہوری حکومت کے سات سالہ دور میں ملک بھر میں دس یونیورسٹیاں بھی نہیں کھولی گئیں۔ نواز حکومت نے اپنی الیکشن مہم میں دعویٰ کیا تھا کہ اُن کے پاس ماہرین پر مشتمل ٹیم ہے جو ملک کو بدحالی سے نکالے گی اور ایشیاء کا ترقی یافتہ ملک بنائے گی، مگر دور دور تک ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔
ہم تعلیم پر کم ترین خرچ کر رہے ہیں، اور وہ خرچ بھی اعلیٰ تعلیمی سطح پر شفاف ہو تو ہو، پرائمری و سیکنڈری سطح پر بالکل بھی نہیں ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام کو ہنگامی بنیادوں پر تبدیلی کی ضرورت ہے، مگر ہمارے منصوبے اس کے الٹ ہیں۔ اگر تعلیم دُشمن منصوبوں کو اسی طرح سے جاری رکھا گیا تو پاکستان دُنیا بھر میں صرف صارف ملک کے طور پر ہی پہچانا جائے گا کیونکہ ہم درآمدات پر زیادہ خرچ کر رہے ہیں، لیکن ملکی پیداوار کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔
پاکستان کی ترقی صرف تحقیق، سائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے بڑھنے سے ہی وابستہ ہے اور ان شعبوں میں ترقی کرنے کے لیے سڑکوں کی تعمیر کی سوچ سے باہر نکلنا ہوگا۔ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کی مد میں قومی پیداوار کا ایک فیصد مختص کرنا ہوگا۔ حکومت کو تعلیم کے شعبے کے لیے قومی پیداوار کا چار فیصد خرچ کرنا پڑے گا، ہائر ایجوکیشن روڈ میپ کے ذریعے سے وفاقی سطح پر نئی ریسرچ یونیورسٹیز بنانا ہوں گی۔ توانائی کی قلت پر قابو پانے کے لیے بائیو اینڈ فیول ٹیکنالوجی پر مشتمل نئے پراجیکٹس پر کام کا آغاز کرنا ہوگا۔
پڑھیے: ڈیزل چھوڑیں، سولر پینل لگائیں!
ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں پوری دنیا سورج کی روشنی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی طرف قدم بڑھا رہی ہے تاکہ آلودگی پر قابو پایا جا سکے اور اخراجات پر بھی، لیکن ہم ہیں کہ اپنی توانائی کی ضروریات مہنگے امپورٹڈ ایندھن سے پوری کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہم بجلی کی طلب کے برابر پیداوار نہیں کر پارہے جس کا نتیجہ کم قومی پیداوار کی صورت میں نکلتا ہے۔
اس سب میں عوام پر بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقوں کے نمائندوں سے یہ پوچھیں کہ ان کے حلقے میں، اور مجموعی طور پر حکومت کی جانب سے ملک بھر میں تعلیم پر کیا خرچ کیا جارہا ہے۔ یہی وقت ہے کہ ہم بھی مغربی ممالک کی طرح اپنے ووٹ کو تعلیمی بجٹ کے بڑھانے اور اس کے شفاف استعمال کے ساتھ مشروط کریں تاکہ ہمارے بچوں کو بہتر تعلیم میسر ہو سکے۔ حکومت کو تعلیمی شعبے پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگی۔
اس خطے میں پاکستان کی بقاء صرف اسی میں ہے کہ اس ملک کو نالج اکانومی بنایا جائے جہاں نئے علوم اور تکنیکوں کی تخلیق ہو، اور صنعت کے ساتھ مل کر ان علوم کا اطلاق کیا جائے۔ اگر حکومت نے ایسا نہ کیا تو پاکستان ہمیشہ غریب ملک اور آئی ایم ایف کا مقروض رہے گا۔
کیا ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان مقروض ہی رہے؟
اکمل سومرو سیاسیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں akmalsoomroCNN@
ان سے ان کے ای میل ایڈریس akmal.soomro@hotmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔