دنیا

سعودی عرب: طلاق پارٹیوں کی بڑھتی ہوئی شرح

اپنی شادی کے ٹوٹنے کی خوشی میں مطلقہ خواتین لگژری ہالز میں شادی کی طرز پر تقریبات کا انعقاد کرتی ہیں۔

أبھا، سعودی عرب: ’’مجھے فخر ہے کہ میں آپ کو اپنی طلاق پارٹی میں مدعو کررہا ہوں۔‘‘ اس طرز کے دعوت نامے اب ارسال کیے جارہے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب میں ایسی خواتین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، جو اپنی شادی کے خاتمے پر خوشی منانے کی خواہشمند ہیں۔

عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق شادی یا گریجویشن کی تکمیل پر دی جانے والی پارٹیوں کی طرح یہ تقریبات دلکش اور خوبصورت ہالز میں منعقد کی جارہی ہیں۔ جس پر بھاری رقوم خرچ کی جاتی ہے اور جس میں عزیز و اقارب کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے۔

ان تقاریب میں آنے والے مہمان بھی شادی ٹوٹنے پر خوشی سے سرشار خاتون کو قیمتی تحائف دیتے ہیں۔

ایک نفسیات دان اور عرب نفسیات دانوں کی تنظیم کے نائب جنرل سیکریٹری پروفیسر طارق حبیب کہتے ہیں کہ سعودی سوسائٹی میں یہ انوکھی چیز ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’اگر ان پارٹیوں کے بچوں پر سماجی اور نفسیاتی طور پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، تو پھر اس کو ترک کردینا چاہیے۔‘‘

’’اگر کسی جوڑے کے بچے نہیں ہیں تو پھر ایسی خواتین کو اپنی خوشی کا اظہار کرنے اور اس کو منانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ خواتین ایسی تقاریب اس لیے منعقد کرنا چاہیں گی، کہ انہوں نے ایک ناکام شادی کو ختم کردیا ہے اور وہ اپنے سابق شوہر کو بتانا چاہیں گی کہ انہیں ان کی کوئی پروا نہیں ہے۔

نیشنل سوسائٹی برائے انسانی حقوق کی ایک رکن صالحہ زین العابدین کہتی ہیں کہ اس طرح کی تقریبات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین کو طلاق حاصل کرنے میں کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

صالحہ نے کہا ’’ایسی خواتین جو ناانصافی، ذلت اور مصائب کے تحت زندگی گزار رہی ہیں، وہی اس پر خوشی منائیں گی۔ اس طرز کے حالات کے تحت کسی بھی فرد کا خوش ہونا اور ان کا اپنی طلاق پر خوشی منانا غلط نہیں ہوگا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ انہیں اس بات پر یقین نہیں کہ ماؤں کے خوش ہونے سے ان کے بچوں پر بُرا اثر پڑے گا۔

صالحہ نے کہا ’’اگرچہ علیحدگی سے بچوں پر اثر پڑتا ہے، لیکن جب وہ اپنے اپنی ماؤں کو خوش دیکھیں گے تو وہ بھی خوش ہوں گے، خاص طور پر ایسی صورت میں کہ جب ان کے والد نے ان کی ماں کے ساتھ بُرا سلوک کیا ہو۔‘‘

اُمّ القریٰ یونیورسٹی میں اسلامی قوانین کے پروفیسر محمد السعیدی نے کہا کہ خدا کو طلاق سے نفرت ہے۔ اس بات کی تصدیق حدیث سے ہوتی ہے۔ اور لوگوں کو اس پر خوشی نہیں منانی چاہیے، اگر وہ اس پر خوش ہوتے ہیں تو یہ ایک سماجی المیہ ہوگا۔

محمد السعیدی نے میڈیا پر زور دیا کہ ان پارٹی سے متعلق لوگوں میں خدشات کو فروغ دے اور ایسے لوگ جو ان میں شرکت کرتے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی نہ کرے۔ انہوں نے کہا ’’یہ مستقبل کے لیے سانحہ ہوگا۔‘‘

عرب کونسل کی سندیافتہ نفسیات دان اور خاندان کی مشیر سحر رجب کہتی ہیں کہ اس طرز کی پارٹیوں کا انعقاد کرکے سعودی شہریوں کو مغربی نقالی نہیں کرنی چاہیے، چاہے وہ انتہائی حد تک دکھی کیوں نہ ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ’’طلاق پارٹیوں کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔‘‘

سحر رجب نے سوال کیا کہ ’’ان پارٹیوں میں شریک ہونے والے ان خواتین کی طلاق کس طرح مبارکباد دیتے ہیں جبکہ انہوں نے پہلے ان کی شادی کے دن انہیں ہدیہ تہنیت پیش کیا تھا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ یہاں طلاق پارٹیوں کے حوالے سے ایک صنعت پروان چڑھ رہی ہے، جس کے تحت مٹھائی کی دکانوں نے اس موقع کے لیے خصوصی کیک اور دیگر مصنوعات تیار کرنی شروع کردی ہیں۔ یہ ناگوار ترقی ہے۔

سماجی ماہر حیفہ سفوک کہتی ہیں کہ کچھ خواتین محض توجہ حاصل کرنے کے لیے ایسی تقریبات مناتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’’اس رویے کی بہت سی وجوہات ہیں، لیکن زیادہ تر کی وجہ یہ ہے کہ ایسی خواتین کم علم ہیں اور ذہنی طور پر بالغ نہیں ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ کچھ خواتین اپنی طلاق پر خوشی اس لیے مناتی ہیں کہ معاشرے نے ان کے ساتھ کوئی ہمدردی ظاہر نہیں کی، لہٰذا انہوں نے اپنی مایوسی اور منفی احساسات سے نجات کے لیے یہ راستہ اختیار کیا۔ اس کے علاوہ ان تقریبات میں مدعو مہمان ان مطلقہ خواتین کی مدد کرنا چاہتے ہیں، اس لیے ان میں شریک ہوتے ہیں۔ تاہم یہ ہمدردی کے اظہار کا مناسب طریقہ نہیں ہے۔