پاکستان

رضا ربانی سنیٹ چیئرمین کے لیے اپوزیشن کے امیدوار

ڈپٹی چیئرمین کے عہدے کے لیے امیدوار کے نام کا اعلان بعد میں کیا جائے گا اور بلوچستان سے کسی کو نامزد کیا جائے گا۔

اسلام آباد : اپوزیشن جماعتوں نے متفقہ طور پر پیپلزپارٹی کے رضا ربانی کو سینیٹ چیئرمین کے عہدے کے لیے نامزد کردیا ہے۔

رضا ربانی کے نام کا اعلان اے این پی کے صدر اسفندیار ولی خان نے زرداری ہاﺅس میں ایک اجلاس کے بعد تمام اپوزیشن جماعتوں کے نمائندگان کی موجودگی میں کیا۔

سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین کے عہدے کے لیے امیدوار کے نام کا اعلان بعد میں کیا جائے گا مگر مسلم لیگ ق کے رہنماءکامل علی آغا نے صحافیوں کو بتایا کہ اس عہدے کے لیے بلوچستان سے کسی کو نامزد کیا جائے گا۔

رضا ربانی پاکستان پیپلزپارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے مشترکہ امیدوار ہوں گے۔

اسفند یارا ولی نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ فاٹا کے موجدہ سینیٹرز بھی اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہیں جبکہ ایک فاٹا سینیٹر کا تعلق جے یو آئی ف سے ہے۔

جے یو آئی ف کے رہنماءمولانا فضل الرحمان نے بھی کچھ وقت کے لیے اجلاس میں شرکت کی مگر وہ اعلان کے موقع پر وہاں موجود نہیں تھے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ مولانا اپنے آپشنز کو کھلا رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کی منگل کو وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات شیڈول ہے۔

ایک اپوزیشن رکن کے مطابق جے یو آئی ف کے سربراہ نے کہا ہے کہ وہ حکومتی یا اپوزیشن کی حمایت کا رسمی اعلان منگل کو ایک پریس کانفرنس کے دوران کریں گے۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اجلاس کے شرکاءنے ڈپٹی چیئرمین کے لیے بلوچستان سے کسی سینیٹر کو نامزد کرنے پر اتفاق کیا تاہم اس کا اعلان کچھ وقت کے لیے ملتوی کردیا گیا تاکہ جے یو آئی ف حکومت یا اپوزیشن امیدوار کی حمایت کے حوالے سے اپنا ذہن بنا سکے۔

ذرائع نے بتایا کہ یہ عہدہ ممکنہ طور پر ق لیگ کے پاس جاسکتا ہے جس کے دو سینیٹرز سعیدالحسن مندوخیل اور روبینہ عرفان ہیں یا اے این پی کے داﺅد خان اچکزئی کے نام پر بھی غور ہوسکتا ہے۔

پی پی پی کے امیدوار کے لیے حمایت کی وجوہات کی وضاحت کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنماءڈاکٹر فاروق ستار نے دعویٰ کیا کہ ان کی جماعت پی پی پی کے ساتھ بلدیاتی نظام اور شہری و دیہی سندھ کے حوالے سے ایک اتفاق تک پہنچی ہے " ہم بلدیاتی نظام جلد از جلد تشکیل دینے پر متفق ہوئے ہیں"۔

ایم کیو ایم کے رہنماءنے بتایا کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت بیشتر اختیارات صوبوں کو منتقل ہونے کے بعد اب نئے سماجی معاہدے کی ضرورت ہے۔

سینیٹ انتخابات میں اتفاق کو عظیم کامیابی قرار دیتے ہوئے فاروق ستار نے اتحاد کو مستقبل میں برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا " یہ ضروری ہے کہ اتحاد قانون سازی، قراردادوں کو لانے یا پالیسیوں کو ترتیب دینے کے لیے برقرار رکھا جائے"۔

اس موقع پر بات کرتے ہوئے رضا ربانی نے اپوزیشن جماعتوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ ان کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کریں گے۔

ذرائع نے بتایا کہ اجلاس کے دوران ایم کیو ایم کے اراکین نے ٹیلیفون پر کئی بار اپنے پارٹی سربراہ الطاف حسین سے بات کی جبکہ آصف علی زرداری نے بھی الطاف حسین سے بات کرکے حمایت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔

اس اجلاس کی صدارت آصف علی زرداری نے کی جبکہ اس میں مسلم لیگ ق کے چوہدری شجاعت حسین، سیکرٹری جنرل مشاہد حسین سید، کامل علی آغا، اے این پی کے صدر اسفندیار ولی، بی این پی عوامی کے سربراہ اسرار اللہ زہری، ایم کیو ایم کے رہنماءڈاکٹر فاروق ستار اور خالد مقبول صدیقی نے شرکت کی۔

اس سے قبل وفاقی دارالحکومت میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر نظر آئیںاجبکہ نواز لیگ اور پی پی پی کی جانب سے چھوٹی جماعتں کو مختلف پیشکشیں کرکے اپنی جانب کھینچنے کی کوششیں جاری رہیں۔

شہباز شریف کی الطاف حسین سے بات چیت : ایم کیو ایم جو اب سینیٹ میں تیسری بڑی جماعت بن گئی ہے، اب بھی پی پی اور نواز لیگ کی توجہ کا مرکز ہے، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین سے ٹیلیفون سے بات چیت کی۔

یہ دونوں جماعتوں کی قیادت کے درمیان سترہ برسوں کے دوران پہلا براہ راست رابطہ بتایا جارہا ہے۔

بعد ازاں ایم کیو ایم کے لندن سیکرٹریٹ کی جانب سے بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ شہباز شریف اور الطاف حسین کے درمیان ' خوشگوار ماحول' میں بات چیت ہوئی۔

شہباز شریف نے ایم کیو ایم اور نواز لیگ کے درمیان باہمی سمجھوتے پر تبادلہ خیال کیا اور " سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن کے لیے دونوں جماعتوں کے درمیان تعاون پر بات کی"۔

انہوں نے کہا کہ یہ وقت ہے کہ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر آگے بڑھا جائے۔

الطاف حسین نے کہا کہ سیاسی اور نظریاتی اختلافات جمہوری عمل کا حصہ ہے مگر حریفوں کے درمیان دشمنی نہیں ہونی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ زندگی گزرنے کے ساتھ ماضی کو بھول جانا چاہئے اور ہر ایک کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے۔

شہباز شریف نے کہا کہ سب کو ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احساس کرنا چاہئے جبکہ انہوں نے لندن آکر الطاف حسین سے ملاقات کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔

رضا ربانی کی سربراہی میں پی پی پی کے ایک وفد نے بھی ایم کیو ایم کے رہنماﺅں سے زرداری ہاﺅس کے اجلاس سے قبل ملاقات کی۔

بعد ازاں آصف علی زرداری نے ایم کیو ایم کے سربراہ سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا اور " سینیٹ انتخابات، ملکی سیاسی صورتحال اور باہمی دلچسپی کے دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا"۔

ایم کیو ایم کے بیان کے مطابق " آصف علی زرداری نے کہا کہ پاکستان کی موجودہ صورتحال میں سیسی مصالحت کو بڑھانا جبکہ عوام میں اتحاد پیدا کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پی پی پی اور ایم کیو ایم کا مصالحتی سیاست کے حوالے سے اچھا ماضی رکھتے ہیں"۔

الطاف حسین نے پی پی رہنماءسے اتفاق کیا اور کہا کہ پاکستان سب کے لیے ہے اور سیاسی جماعتوں کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا جانا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ عوام کے پاس میرٹ ہے کہ وہ حکمرانی یا عوامی خدمت کا موقع فراہم کریں۔ انہوں نے کہا کہ اختلافات سیاست کی خوبصورتی ہیں مگر ایک دوسرے کے حقوق اور ذمہ داریوں کا احساس کیا جانا چاہئے۔

مسلم لیگ ن کا چوہدری شجاعت سے رابطہ : ایک اہم اقدام کرتے ہوئے وفاقی وزراءپرویز رشید اور خواجہ سعد رفیق نے مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین کی رہائشگاہ کا دورہ کیا اور سینیٹ کے اعلیٰ عہدون کے اتنخابات کے لیے تعاون کی درخواست کی۔

پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الہیٰ نے بعد میں ایک ٹی وی چینیل سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ چوہدری شجاعت نے واضح طور پر نواز لیگ کے اراکین کو بتایا وہ صرف اسی صورت میں حکمران جماعت کے امیدواروں کی حمایت کریں گے جب ان کا تعلق ن لیگ سے نہ ہوا۔

دوسری جانب پی پی پی کی سینیٹ میں پوزیشن مزید مضبوط اس وقت ہوگئی جب بلوچستان سے آزاد امیدوار کے طور پر کامیاب ہونے والے یوسف بدینی نے آصف علی زرداری سے ملاقات کے بعد پارٹی میں شمولیت کا اعلان کردیا۔

جے یو آئی ف نے اس سے قبل زرداری ہاﺅس کے اجلاس میں شرکت پر رضامندی ظاہر کی مگر بعد میں اس سے انکار کردیا۔

جے یو آئی ف کے ترجمان جان اچکزئی نے ڈان کو بتایا کہ اپوزیشن کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ ایک پارٹی اجلاس میں کیا گیا۔

رضا ربانی اور عبدالقیوم سومرو پر مشتمل پی پی پی کے وفد نے جے یو آئی ف کے سربراہ سے دو بار ملاقات کرکے انہیں اجلاس میں شرکت کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی۔

ذرائع کے مطابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی مولانا فضل الرحمان سے ٹیلیفون پر بات کرکے وزیراعظم نواز شریف سے ظہرانے پر ملاقات کی دعوت دی اور کہا کہ وہ اپنے تحفظات اس ملاقات میں بتائیں۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ مولانا فضل الرحمان کو 21 ویں صدی کی کچھ شقوں پر تحفظات ہیں اور وہ حکومت سے یہ یقین دہانی چاہتے ہیں کہ اس قانون کو مذہبی جماعتوں اور مدارس کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔

اس وقت جب پی پی پی اور نواز لیگ کو لگ بھگ یکساں نمائندگی حاصل ہے اور وہ سینیٹ کے اعلیٰ عہدوں کے لیے اپنے امیدواروں کو منتخب کرانے کی پوزیشن میں نہیں، اس لیے وہ چھوٹی جماعتوں کو ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ دینے پر رضامندی ظاہر کررہی ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز لیگ نے کہا ہے کہ حکومت چیئرمین کا عہدہ تک اپنی کسی اتحادی جماعت کو دینے کے لیے تیار ہے اور وہ سنجیدگی سے حاصل بزنجو کو چیئرمین سینیٹ کے لیے اپنا امیدوار بنانے پر غور کررہی ہے۔

صدر مملکت نے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے لیے سینیٹ کا اجلاس بارہ مارچ کو طلب کیا ہے۔