قوم کو بھکاری مت بنائیے!
ہمارے ٹی وی چینلز ہر وقت ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دھن میں لگے رہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال مارننگ شوز تو تھے ہی؛ ایک چینل پر جب کسی مارننگ شو میں شادی سیزن شروع ہوتا تھا تو تمام چینلز رسموں اور دھوم دھڑکے کی ریس میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی تگ و دو میں مصروف نظر آتے تھے۔ ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑ دینے کی اسی ریس میں ایک نیا ٹرینڈ گیم شوز کا ہے جہاں لاکھوں روپے کے انعامات اور بیش قیمت مصنوعات شرکاء کو کبھی کچھ بے مقصد گیمز کھلاِ کر تو کبھی یونہی بانٹ دیے جاتے ہیں۔
گیم شوز کے اس ٹرینڈ کا آغاز ایک ٹی وی چینل کی رمضان نشریات سے ہوا جسے بعد میں دیگر چینلز نے بھی اپنی رمضان نشریات کا حصّہ بنا لیا کیونکہ اس وقت اس چینل کی رمضان نشریات کی بڑھتی ہوئی ریٹنگز تمام چینلز کے لیے باعثِ تشویش تھیں۔ بعدِ ازاں جب اس چینل نے اس گیم شو کو اپنی عمومی نشریات کا حصّہ بنانے کا اعلان کیا تو دیگر چینلز نے بھی اس آواز پر لبّیک کہنا اپنا فرضِ اوّلین سمجھا اور نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہر بڑے انٹرٹینمنٹ چینل پر مختلف نامور ٹی وی ستارے گیم شوز پیش کرتے نظر آ رہے ہیں۔
مجھے تشویش گیم شوز کی فراوانی یا انعامات کی تقسیم پر نہیں، اور نہ ہی میں کسی کو ملنے والے انعامات پر ناخوش ہوں، بلکہ اصل حیرت، پریشانی اور سوچنے کا مقام یہ ہے کہ انعامات دیے بلکہ "بانٹے" کسِ انداز میں جا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں گیم شوز پیش کیے جاتے ہیں اور شائقین اور ناظرین کی بڑی تعداد انِ سے محظوظ ہوتی ہے، لیکن ایسے تمام پروگراموں میں یا تو شرکاء اپنی ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہیں یا پھر اپنی ذہنی صلاحیتوں اور استعداد کو بروئے کار لا کر خود کو انِ انعامات کا صحیح حقدار تسلیم کرواتے ہیں۔
دور کیوں جائیں؟ پڑوسی ملک بھارت ہی کی مثال لے لیجیے جہاں "کون بنے گا کروڑپتی"، جسِ میں شریک افراد اپنی ذہانت کے بل پر کروڑوں روپے جیتتے ہیں، کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکا ہے، اور عوام کو اِس شو کا نیا سیزن شروع ہونے کا بے چینی سے انتظار رہتا ہے۔ نوجوان نسل کے لیے پیش کیا جانے والا "بورن ویٹا کوئز کانٹیسٹ" بھی کامیابی کی ایک ایسی ہی مثال ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاکستانی قوم میں ذہانت، صلاحیت اور ذہنی استعداد کی کمی ہے؟ یا ہم اپنی قوم کو "آسان حصول" اور"easy money" کا عادی بنا رہے ہیں؟
بظاہر یہ بات محض کسی گیم شو میں "QMobile چاہیے" کا جملہ ہو یا "ابوّ کے لیے یونیک بائیک چاہیے" کی پکار، یہ کسی ٹریفک سگنل پر ایک فقیر کی جانب سے "ایک روٹی دلاِ دیں باجی!" کی مانگ کے عین برابر ہے۔
اِن گیم شوز میں آنے والے خاندانوں کی اکثریت متوّسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی ہوتی ہے۔ چند انعامات کے لیے اپنی عزتِ نفس اور خودداری کو داؤ پر لگانا، انعامات کے حصول کے لیے آوازیں لگانا اور چھینا جھپٹی میں حصّہ لینا ایک ایسا شرمناک منظر لگتا ہے جسِ پر کسی بھی ذی ہوش اور خوددار شخص کا سرشرم سے جھک جائے۔ یہی نہیں بلکہ شرکاء کا ایسے مضحکہ خیز مقابلوں میں حصّہ لینا یا میزبان کی جانب سے کیے گئے کسی احمقانہ مطالبے کو تسلیم کرنا بھی اتنا ہی عجیب و غریب اور ناقابلِ دید منظر نظر آتا ہے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی کیونکہ رہی سہی کسر میزبان کے انعامات تقسیم کرنے کے صوابدیدی اختیارات پورا کر دیتے ہیں۔ "باجی! ذرا مسکرا کر دکھائیں! واہ! باجی کی مسکراہٹ پر ایک Mobile" اور "آنٹی، چلیں، یہ یونیک کی بائیک میری طرف سے، آپ کے اور انکل کے لیے، انکل، آنٹی کو لے کر جائیے گا آئسکریم کھلانے" کچھ ایسے ہی مثالیہ جملے ہیں جن پر شرکاء خوش ہوتے اور قہقہے لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس قسم کی سستی تفریح اور بقول ایک میزبان "خوشیاں بانٹنے کی روایت" محض ہماری اخلاقی پستی اور مفت انعامات کے حصول کی بے انتہا بھوک کی نشاندہی کرتی ہے۔
اس وقت جب ہر چینل انعامات بانٹنے کی اس ریس میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کے نت نئے راستے تلاش کر رہا ہے، کیا ہمارے دانشوروں، تعلیم یافتہ طبقے، سماجی اداروں اور تنظیموں میں سے ایسا کوئی نہیں جو اس پر آواز اٹھا سکے؟ یا آواز اٹھانے والوں کو خوشیوں کا دشمن قرار دے کر چپ کروا دیا جائے گا؟ کیا کوئی ایسا طریقہ ہے جو عوام کی خودداری کو ٹھیس پہنچائے بغیر انہیں انِ انعامات کے حصول کی راہ دکھا سکے؟ انعامات بانٹیے! لاکھوں نہیں، کروڑوں روپے دیجیے مگر بھیک کی طرح نہیں، خیرات کی طرح نہیں۔
میرا خیال ہے کہ اگر پاکستان میں بھی کون بنے گا کروڑپتی طرز پر ذہنی استعداد جانچنے والے سخت مقابلوں کا اہتمام کیا جائے، تو ہمارے ذہین ہموطن اس میں بھی زبردست انعامات سمیٹ سکتے ہیں۔
یہ مانا کہ تفریحِ طبع ضروری ہے مگر جس طرح ہمارے گیم شوز میں انعامات بے تکے سوالات اور مقابلوں کے بعد انعام اچھالے جاتے ہیں، ایسا دنیا کے کسی ملک کے کسی گیم شو میں نہیں ہوتا۔
عوام میں، شرکاء میں یہ احساس بیدار کیجیے کہ انہوں نے یہ انعام اپنی ذہانت یا استعداد کے بل پر پروقار انداز میں حاصل کیے ہیں۔ ان میں بھکاری ہونے، ہاتھ پھیلانے اور انعام مانگنے کی تحریک کو ختم کیجیے۔ کوئز پروگراموں، کسوٹی، تقریری مقابلوں، جنرل نالج اور آئی کیو کو بروئے کار لانے والے سوالوں اور مقابلوں کو پروان چڑھائیے۔
پروگرام کے دوران شور و غلغلے اور ہنگامے میں اضافے کے لیے شرکاء میں ایک دوسرے کو پچھاڑ کر جواب دینے کی ریت ڈالنے کے بجائے تمیز و تہذیب کی روایت ڈالیے، اگر تہذیب کا دامن تھامے رکھنا مقصد ہے تو۔
شاذیہ کاظمی ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز ہیں اور ایڈورٹائزنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے ٹی وی ڈرامے اور ریڈیو پروگرامز بھی تحریر کیے ہیں۔ انِہیں دو PAS ایوارڈز بھی ملِ چکے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: shaziya@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔