پاکستان

ارسا کا پانی کے شدید بحران کا انتباہ

ارسا کا کہنا ہے کہ کم از کم بائیس ملین ایکڑ فیٹ (ایم اے ایف) ذخیرے کی صلاحیت جلد از جلد حاصل کی جانی چاہئے۔

اسلام آباد : شدید موسمیاتی حالات کے نتیجے میں پانی کے بحران کے خدشات کے ساتھ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے حکومت سے تمام ترقیاتی پروگرامز (پی ایس ڈی پی) پانچ سال کے لیے منجمد کرنے اور جنگی بنیادوں پر بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے ان فنڈز کا استعمال قومی ترجیح قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

چاروں صوبوں کے آبپاشی اور انجنیئرنگ ماہرین پر مشتمل ارسا نے اہم آبی ذخائر کا نام تو نہیں لیا مگر تاہم یہ ضرور کہا ہے کہ کم از کم بائیس ملین ایکڑ فیٹ (ایم اے ایف) ذخیرے کی صلاحیت جلد از جلد حاصل کی جانی چاہئے۔

ارسا کے چیئرمین رقیب خان نے سیکرٹری پانی و بجلی کے نام لکھے مراسلے میں کہا ہے " ملک کو درپیش مشکلات کے خاتمے کے لیے تمام شعبوں کو پی ایس ڈی پی کو پانچ سال کے لیے منجمد کردیا جانا چاہئے اور فنڈز کا رخ میگا ذخائر کی تعمیر کے لیے ترجیحی بنیاد پر موڑ دیا جانا چاہئے کیونکہ عوامی مفاد میں ہے"۔

یہ مراسلہ ارسا کے اجلاس کے بعد جاری ہوا اور پانی کے ذخائر کے لیے فنڈز کے لیے پی ایس ڈی پی منصوبوں کو منجمد کرنے کے آپشن کے حوالے سے سوال پر سیکرٹری پانی و بجلی یونس ڈھاگا نے تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ارسا کا خط ابھی تک نہیں دیکھا ہے۔

ارسا کی جانب سے 25 فروری کو لکھے گئے خط جس کی ایک نقل ڈان کو دستیاب ہے، میں کہا گیا ہے وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے گزشتہ ماہ پانی کے بحران کی جانب سے اشارہ کیا تھا جو لوگوں کو موجودہ توانائی کا بحران بھلا دینے پر مجبور کرسکتا ہے۔

ارسال نے یہ بھی کہا کہ 30 ایم اے ایف سے زیادہ پانی سمندر میں جارہا ہے حالانکہ ماحولیاتی وجوہات کے لیے کوٹری ڈاﺅن اسٹریم میں آٹھ سے دس ایم اے ایف پانی کی ہی ضرورت ہے۔

ادارے نے مزید کہا ہے کہ مختلف آبی منصوبوں پر ' اتفاق' کی بحث درحقیقت غیرسنجیدگی کو چھپانے کی کوشش ہے۔

خط میں کہا گیا ہے " یہاں 1991 کے پانی کے معاہدے کے پیرا سکس کا ذکر کرنا برمحل ہوگا جس پر تمام صوبوں نے سولہ مارچ کو دستخط کیے اور جس کی توثیق مشترکہ مفادات کونسل نے اکیس مارچ 1991 کو کی، پیرا میں واضح طور پر نئے آبی ذکائر کی ضرورت پر زر دیا گیا ہے"۔

پیرا سکس میں کہا گیا ہے کہ سندھ اور دیگر دریاﺅں میں قابل عمل پانی کے ذخائر کی مستقبل میں آبپاشی کی ترقی کے لیے ضرورت کا اعتراف کیا جاتا ہے۔

ارسا کا کہنا ہے کہ " معاہدے کا بنیادی فیچر آبی ذکائر کی توسیع کے حوالے سے ہے کیونکہ اس کے چودہ پیروں میں سے چھ اس بارے میں ہیں مگران قیمتی ذکائر کے حوالے سے لاتعلقی کے نتیجے میں پانی کی دستیابی کینال ہیڈز میں 97 ایم اے ایف تک گر گئی ہے (جو کہ 1991 میں 105 ایم اے ایف تھی)"۔

یہ خلاءمزید بڑا ہوگا اور خوفناک حد تک پہنچ جائے گا کیونکہ موجودہ ذخائر کی صلاحیت وقت گزرنے کے ساتھ کئی وجوہات کی بناءپر زوال پذیر ہے۔

ارسا نے مزید کہا کہ اوسطاً اس وقت تیس ایم اے ایف تازہ پانی کوٹری بیراج کے ڈاﺅن اسٹریم میں سمندر کے لیے چھوڑا جارہا ہے جبکہ بنیادی ضرورت 8.6 ایم اے ایف کی ہے " لگ بھگ بائیس ایم اے ایف تازہ پانی کوٹری سے سمندر میں بغیر استعمال کیے چھوڑا جارہا ہے"۔

ارسا کے مطابق " ملک میں پانی کی مجموعی دستیابی 145 ایم اے ایف (اوسطاً) ہے جبکہ اس وقت ذخیرے کی صلاحیت صرف 14.10 ایم اے ایف یعنی 9.7 فیصد ہے، جبکہ دیگر ممالک میں یہ اوسط چالیس فیصد تک ہے جس کے حصول کی فوری ضرورت ہے"۔

خط میں کہا گیا ہے " اس چیز کو دیکھتے ہوئے ارسا پرزور سفارش کرتی ہے کہ نئے آبی ذخائر جنگی بنیادوں پرتعمیر کیے جائیں جن کی کم از کم صلاحیت 22 ایم اے ایف ہو کیونکہ زراعت ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے"۔

ارسا کا کہنا تھا کہ نئے ذخائر سے پانی کی دستیابی کی صورتحال میں بہتری لانے میں مدد ملے گی جبکہ جی ڈی پی اور سیلاب کو کنٹرول کرنے میں بھی مدد ملے گی، اس کے علاوہ سستی ماحول دوست ہائیڈرو الیکٹروک بجلی سے توانائی بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔

مقامی اور عالمی آبی ماہرین جن میں عالمی بینک اور ارتھ پالیسی انسٹیٹوٹ بھی شامل ہیں، نے پاکستان کے لیے بڑے پانی کے بحران، سیلاب، قحط سالی، دس سے چالیس برسوں کے دوران ہمالیہ کے گلیشیئرز کا غیرمعمولی رفتار سے پگھلنا، اسٹوریج کی کم صلاحیت اور دیگر غیریقینی صورتحال کا انتباہ کیا ہے۔