پاکستان

مدارس کے خلاف کارروائیوں کی مزاحمت کا فیصلہ

مفتی منیب الرحمان نے کہا ہے کہ حکومت جان بوجھ کر ملک کو افراتفری اور بے چینی کی جانب دھکیل رہی ہے۔

لاہور: اتحاد التنظیم مدارس جو مذہبی مدارس کے پانچ وفاق کی ایک سرپرست تنظیم ہے، نے فیصلہ کیا ہے کہ مدارس کے خلاف سرکاری اقدامات کی سختی کے ساتھ مزاحمت کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی حکمرانوں کے تمام ’’غیرآئینی‘‘ اقدامات کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ وہ مبینہ طور پر عالمی طاقتوں کے ایجنڈے کی پیروی کررہے ہیں۔

یہ فیصلہ اتوار کے روز یہاں جماعت اسلامی کے ہیڈکوارٹر منصورہ پر منعقدہ ایک اجلاس کے دوران کیا گیا۔

اس تنظیم نے مدرسوں اور مذہبی عالموں کے سلسلے میں شبہات دور کرنے کے لیے وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ شہباز شریف کے ساتھ فوری طور پر ملاقات کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ انہوں نے مذہبی عالموں کی گرفتاریوں کو روکنے اور جنہیں پہلے سے حراست میں لیا جاچکا ہے، ان کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔

اس فیصلے کا اعلان اس اجلاس کے بعد پانچوں وفاق کے سربراہوں کی ایک مشترکہ کانفرنس میں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور آئین کسی بھی غیر اسلامی سرگرمی کی اجازت نہیں دیتا۔ انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس کے باوجود حکومت امریکا اور مغرب کے اسلام مخالف منصوبے کو آگےبڑھانے پر تُلی ہوئی ہے۔

اس پریس کانفرنس میں مولانا عبدالمالک، مفتی منیب الرحمان، قاری حنیف جالندھری، یاسین ظفر اور سید کاظم نقوی نے اس پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مدارس کی رجسٹریشن پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن حکومت نہ تو ان مدارس کی رجسٹریشن کررہی ہے، اور نہ ہی ان مدرسوں کے نام بتا رہی جو مبینہ طور پر دہشت گردی میں ملؤث ہیں۔

انہوں نے کہا کہ علماء کی گرفتاریوں، مساجد میں لاؤڈاسپیکرز کے استعمال پر پابندی اور ہراساں کرنے کے ذریعے ایک غیراسلامی ایجنڈے کی پیروی کی جارہی ہے۔

مفتی منیب الرحمان نے کہا کہ حکومت جان بوجھ کر ملک کو افراتفری اور بے چینی کی جانب دھکیل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پشاور کے سانحے کے بعد علماء اور مذہبی حلقوں نے فوجی عدالتوں سمیت دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان کی مکمل حمایت کی تھی، اگرچہ اس پلان میں ’’مذہبی اور فرقوں‘‘ کے الفاظ کی شمولیت کی وجہ سے ان کے تحفظات تھے۔

انہوں نے کہا کہ اکیسویں ترمیم کے منفی اثرات اب ثابت ہوگئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی مختلف صورتیں اور اقسام ہیں، تاہم صرف مدرسوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔

مفتی منیب الرحمان نے کہا ایک جانب حکومت نے اسلام آباد کے دھرنوں کی وجہ سے بھاری نقصان اُٹھایا ہے،تو دوسری جانب اس نے ملک میں مذہبی قوتوں کے خلاف ایک نیا محاذ کھول دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت کے ساتھ بھی مذاکرات بھی جاری ہیں اور انہوں نے مذہبی امور، تعلیم اور داخلہ کے وفاقی سیکریٹریوں سے بھی بات چیت کی تھی، لیکن مدرسوں پر چھاپے ایک دن کے لیے بھی معطل نہیں ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے وزیر داخلہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ غیرآئینی سرگرمیوں میں ملوث افراد اور مدرسوں کے نام پیش کریں، تاکہ قوم ان لوگوں کے بارے میں علم ہوسکے جو لوگ دہشت گردی میں ملوث ہیں اور انہوں نے یقین دلایا کہ وہ اس طرح کے عناصر کا کبھی دفاع نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا ’’ریاست کی بقا اور دفاع سب کی مجموعی ذمہ داری ہے، اور ہم اس سلسلے میں کندھے سے کندھا ملا کر حکومت کے ساتھ ہیں، اور ظلم، لاقانونیت اور دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی کا دفاع نہیں کریں گے۔‘‘

مفتی منیب نے بتایا کہ انہوں نے وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب اور ایجنسیوں کے سربراہوں کو خطوط تحریر کیے تھے، لیکن کسی کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ مشرف کے دور سے مدرسوں کی نگرانی کی جارہی ہے۔ پچھلے 18 برسوں کے دوران مدارس کے خلاف الزامات عائد کیے گئے تھے، لیکن کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر انہیں بروقت جواب نہیں دیا گیا، تو وہ احتجاج کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔