میڈیا چینلز کی بھیڑ چال میں آج کی اہم ضرورت
پاکستان میں گذشتہ کچھ سالوں میں جہاں آبادی اور بیروزگاری میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، وہیں دوسری طرف میڈیا چینلز کی تعداد میں بھی تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ یہ بڑی ہی حیرت انگیز بات ہے کیونکہ ایسی قوم جس کی معیشت اور حالت تنزلّی کا شکار ہو، جہاں دہشت گردی اور دیگر بنیادی مسائل ہنوز حل طلب اور تعطّل سے دوچار ہوں، اسی معاشرے میں سنجیدہ چینلز کے بجائے تفریحِی چینلز کی تعداد میں روز بروز اضافہ محض ہماری عوام اور اداروں کی دہری شخصیات کی عکاسّی کرتے ہیں۔
یا تو عوام کی توجہ کا مرکز انٹرٹینمنٹ چینلز ہیں یا پھر ایسے نیوز چینلز جہاں گنِے چُنے سیاستدان ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور الزام تراشیاں کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ ان پروگرامز کے اینکرز مسائل کے حل سے زیادہ اسِ بارے میں فکرمند رہتے ہیں کہ کسِ طرح شرکاء کو زیادہ سے زیادہ آپس میں الجھا کر چینل کی ریٹنگ بڑھائی جائے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور یمن کے بعد پاکستان وہ دوسرا ملک ہے جہاں نوجوانوں کی تعداد مختلف العمر افراد کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ایک سیمینار میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 18 کروڑ آبادی والے اس ملک میں تقریباً 60 فیصد نوجوان ہیں جنِ کی عمریں 15 سے 24 سال کے درمیان ہیں جبکہ 18 سے 29 سال کی عمر والے 5 کروڑ نوجوانوں میں 55 فیصد شہروں میں رہتے ہیں اور پڑھے لکھے نوجوان تقریباً 58 سے 60 فیصد ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ مستقبل کے انِ معماروں کے لیے کوئی ایسا مخصوص چینل نہیں ہے جو انہیں مستقبل کی سنہری شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیے خصوصی طور پر پلان یا تیاّر کیا گیا ہو۔ یہ نوجوان جنِ پر ہمارے آنے والے کل کا انحصار ہے، صرف میوزک، نیوز، اور اسپورٹس چینلز دیکھنے پر مجبور ہیں کیونکہ سوائے نیشنل جیوگرافک اور ڈسکوری کے اور کوئی سائنسی و تعلیمی چینل چلتا ہی نہیں ہے۔
حکومتی پالیسیاں، اقدامات اور ادارے اپنی جگہ، مگر میڈیا ایسا طاقتور شعبہ ہے جسے اس ضمن میں اپنا کردار بڑھ چڑھ کر ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ بے شمار ٹی وی چینلز کی موجودگی میں ایک مکمّل تعلیمی چینل کی موجودگی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور حیرت کا مقام یہ ہے کہ اب تک اسِ ضمن میں یا تو سوچا ہی نہیں گیا، یا اب تک اسے جان بوجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
اسِ ضمن میں شاید ایک مفروضہ یہ پیش کیا جائے کہ پاکستان میں نوجوانوں کی بڑی تعداد، بالخصوص شہروں میں رہنے والے نوجوان، ٹیلی ویژن کے مقابلے میں انٹرنیٹ پر وقت بتانے کو ترجیح دیتی ہے، لیکن پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے (PDHS) کی ایک ریسرچ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ 87 فیصد گھروں میں ٹیلی ویژن جبکہ صرف 17 فیصد گھروں میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے۔
دنیا بھر میں تعلیمی چینلز براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشنز کے توسّط سے پیش کیے جاتے ہیں یا پھر پرائیوٹ یونیورسٹیاں مقامی اور ادارتی سطح پر ایسے چینلز نشر کر رہی ہیں۔ ماضی میں پاکستان میں بھی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے پی ٹی وی پر کچھ ایسے پروگرامز پیش کیے ہیں جنِ میں مختلف کورسز ٹی وی کے ذریعے پڑھائے گئے مگر اب یہ سلسلہ بھی بند ہو چکا ہے۔ ورچوئل یونیورسٹی سے آن لائن پڑھانے کا انتظام کیا گیا مگر وہ صرف یونیورسٹی کے پروگرامز اور کورسز کی حد تک محدود ہے۔ پاکستان میں اس وقت بے شمار طلباء پرائیویٹ تعلیمی اداروں، کوچنگ سینٹرز کے اخراجات، اور پرائیویٹ ٹیوٹرز کی منہ مانگی فیسوں کے باعث پریشان ہیں۔ کالجوں اور یونیورسٹیز کے aptitude ٹیسٹ کی تیاّریوں کے لیے مختلف سینٹرز اور ٹیچرز کو بھاری فیسیں دینے پر مجبور ہیں، کالجوں میں طلباء تنظیموں کی گروہ بندی اور اساتذہ کی عدم دستیابی کے باعث اپنی مدد آپ کے تحت پڑھنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔ ایسے میں کسی ایسے تعلیمی چینل کی موجودگی نہایت اہم ہے جہاں انہیں نہ صرف یہ تمام سہولتیں میسّر آئیں بلکہ مستقبل کے حوالے سے کریئر کونسلنگ، تعلیمی رجحانات کا اندازہ لگانے اور اس کے مطابق آگے بڑھنے اور مستقبل کے لیے بہترین راہ چننے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
تعلیمی معاونت کے علاوہ تعلیمی چینلز پر ایسے نوجوانوں کو جو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر سیکھنے کے خواہش مند ہیں اور وقت کی قلّت یا وسائل کی کمیابی کے باعث اسِ خواہش کو پورا کرنے سے قاصر ہیں، مختلف ٹیکنیکل اور ووکیشنل کورسز بھی سکھائے جا سکتے ہیں تاکہ وہ خود کفیل ہو سکیں اور اپنا بھر پور کردار پوری مستعدی کے ساتھ نبھا سکیں۔
اگر ہم اپنے اردِ گرد نظر دوڑائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ آج کا نوجوان ملک کے بدلتے ہوئے حالات، معاشی تنزّلی، سیاسی صورتحال، بیروزگاری، بنیادی ضروریاتِ زندگی کی عدم فراہمی اور دہشت گردی جیسے مسائل کے باعث شدید فرسٹریشن کا شکار ہے، اس وقت اس میں ایک مثبت سوچ کو ابھارنے کی ضرورت ہے۔
ایک تعلیمی چینل ملک کے نوجوانوں کو بیدار کرنے میں پہلی کڑی ثابت ہو سکتا ہے۔ تعلیمی معاملات اور روز مرّہ پڑھائی میں مدد دینے کے علاوہ ان چینلز پر ایسے پروگرام شروع کیے جا سکتے ہیں جو علاقائی اور مقامی سطح پر مختلف شعبوں میں نمایاں آنے والے طالبِ علموں کو متعارف کروائیں۔ مختلف مقامی اور بین الاقوامی کمپنیوں کے تعاون سے ٹیلنٹ ہنٹ پروگرامز کی تشکیل، اسکالر شپس کی فراہمی، کوئز پروگرام، تقریری و تحریری مقابلے، اور ہر شعبے سے متعلقہ نامور شخصیات کے لیکچرز اور بین الاقوامی سیمینارز کی کوریج وغیرہ کچھ ایسی ہی بنیادی سہولتیں ہو سکتی ہیں جو ہمارے نوجوانوں بالخصوص طلباء کے لیے بہتر صلاحیتوں کو کام میں لانے کا سبب بن سکتی ہیں۔
چینلز کی آن لائن اسٹریمنگ، لائیو اور دوبارہ ٹیلی کاسٹ، اور پروگرام کے دوران لائیو کالز کی سہولت ایک پروگرام کو بآسانی الیکٹرونک کلاس روم میں تبدیل کر سکتی ہے، نیز طلباء کے لیے ایسے پروگرامز سے بوقتِ ضرورت استفادے کو بھی ممکن بنا سکتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ پرائیوٹ تعلیمی اداروں اور بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے لیے بھی یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ثابت ہوسکتا ہے جہاں وہ اپنی تعلیمی سہولتوں کی نہ صرف مناسب تشہیر کر سکیں گے بلکہ طلباء کے لیے بہتر گائیڈنس بھی فراہم کر سکیں گے۔
تعلیمی چینلز کے قیام کے ضمن میں باقاعدہ پلاننگ اور تیاری کے ساتھ ساتھ اب عملی اقدامات کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ آج کے نوجوان کو وقت سے درست انداز میں استفادہ کرنے کی تربیت دیِ جا سکے۔ اپنے آنے والے کل اور مستقبل کے ان معماروں کے مستقبل کو سنوارنے لیے ہمیں آج ہی سے محنت کرنی ہوگی اور تعلیمی چینلز کے قیام جیسے کئی اقدامات سے تعلیم کے حصول کو ممکن اور سہل ترین بنانا ہو گا۔
شاذیہ کاظمی ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز ہیں اور ایڈورٹائزنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے ٹی وی ڈرامے اور ریڈیو پروگرامز بھی تحریر کیے ہیں۔ انِہیں دو PAS ایوارڈز بھی ملِ چکے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: shaziya@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔