سانحہ نانگا پربت میں ملوث مجرم گلگت جیل سے فرار
گلگت، بلتستان: ڈسٹرکٹ جیل میں قید چار خطرناک مجرموں نے جیل توڑ کر فرار ہونے کی کوشش کی، جس کے دوران ایک قیدی پولیس مقابلے میں ہلاک، اور ایک زخمی ہوگیا، جبکہ دو فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
یہ واقعہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب تقریباً پونے تین بجے پیش آیا، جب چار سنگین جرائم کے الزام میں قید مجرموں نے گلگت بلتستان کی ڈسٹرکٹ جیل توڑ کر فرار ہونے کی کوشش کی۔ اس دوران جیل کے محافظوں نے ان پر فائرنگ کردی، جس سے ایک قیدی ہلاک اور دوسرا زخمی ہوگیا۔ جبکہ دو فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ ہلاک ہونے والے قیدی کا نام حضرت بلال تھا، جو نانگا پربت سانحے میں ملؤث تھا۔ زخمی ہونے والے قیدی کا اس سانحے سے تعلق نہیں تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ فرار ہونے والا ایک قیدی نانگا پربت پر غیرملکی کوہ پیماؤں کے قتل میں ملؤث تھا۔ فرار ہونے والے دونوں قیدی سزائے موت کے منتظر تھے۔
پولیس نے فرار ہونے والے قیدیوں کی تلاش شروع کردی ہے اور سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ فرار ہونے والے قیدیوں کے نام حبیب الرحمان اور لیاقت ہیں۔
آئی جی گلگت بلتستان نے جیل وارڈن سمیت تین اہلکاروں کو معطل کردیا ہے، جبکہ سیکریٹری داخلہ نے واقعے کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ انکوائری کی سربراہی چیف سیکریٹری گلگت بلتستان خود کریں گے
حکومت نے مفرور قیدیوں کی گرفتاری میں مدد دینے والوں کے لیے بیس لاکھ روپے انعام کا بھی اعلان کیا ہے۔
بی بی سی کے مطابق گلگت بلتستان کے چیف سیکرٹری راجہ سکندر سلطان کا کہنا ہے کہ یہ جیل پر حملے کا واقعہ نہیں تھا، بلکہ صرف چار قیدیوں نے جیل سے فرار ہونے کی کوشش تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان قیدیوں نے دھمکی دی تھی کہ اُن کے پاس ہتھیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جیل کے اندر فرنٹئر کانسٹیبلری اور گلگت بلتستان پولیس جبکہ باہر گلگت اسکاؤٹس کے اہلکار تعینات ہیں۔
یاد رہے کہ 23 جون 2013ء کو پیراملٹری پولیس کی وردی میں ملبوس مسلح شخص نے نانگاپربت میں ایک بیس کیمپ پر فائرنگ کرکے نو غیر ملکی کوہ پیماؤں اور ایک پاکستانی کو ہلاک کردیا تھا۔
سیکورٹی کی ناکامی کے سبب رونما ہونے والا یہ سانحہ مسلم لیگ نون کی نئی حکومت کے اقتدار سنبھانے کے صرف ایک ہفتہ کے بعد ہی پیش آیا تھا۔
پاکستان میں رات کے وقت غیرملکیوں کوہ پیماؤں پر کیے گئے اس حملے کو ایک دہائی کے دوران غیرملکی سیاحوں پر ہونے والا بدترین حملہ اور پاکستان میں سیاحت پر شب خون قرار دیا گیا تھا۔
غیر ملکی کوہ پیماؤں پر حملہ اس وقت ہوا تھا جب وہ سطح سمندر سے چار ہزار دو سو فٹ کی بلندی پر نانگا پربت کے قریب کیمپ میں موجود تھے۔ گلگت بلتستان کے ڈسٹرکٹ دیامیر میں واقع یہ پہاڑ دنیا کے سب سے بلند ترین مقامات میں شامل ہیں۔
اس واقعہ کے بعد مسلم لیگ ن کی نئی حکومت کے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں کہ نانگا پربت میں غیر ملکیوں پر حملہ پاکستان پر حملہ قرار دیا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئی جی پولیس اور چیف سیکریٹری کو برطرف کردیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں دو کالعدم تنظیمیں تحریکِ طالبان اور جنداللہ نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔ تحریک طالبان نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ جنود حفصہ جو ایک دہشت گرد تنظیم کا ایک دھڑا ہے، نے اپنے اہم ترین رہنما ولی الرحمان کے قتل کا بدلہ لینے اور بین الاقوامی برادری پر اپنا غصہ ظاہر کرنے کے لیے یہ حملہ کیا تھا، جو متواتر ڈرون حملوں کی حمایت کررہی ہے۔
دوسری جانب جنداللہ کے ترجمان نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ غیرملکی ان کے دشمن ہیں۔
گلگت بلتستان کی پولیس نے سال 2013ء کے اواخر کے دوران دس غیر ملکی کوہ پیماؤں کے قتل کے شبہ میں 18 مشتبہ افراد کی گرفتار کا دعویٰ کیا تھا، لیکن ساتھ ہی پولیس کا یہ بھی کہنا تھا کہ دیگر افراد اب تک فرار ہیں۔ اور ان 18 افراد کو حملے کی منصوبہ بندی اور حملہ کرنے کے شبہے میں گرفتار کیا گیا ہے۔
مقامی انتظامیہ کے ایک سینیئر آفیشل نے اس وقت خبررساں اداروں کو بتایا تھا کہ دیامیر ضلع میں موجود شدت پسندوں کے پاکستانی طالبان سے روابط ہیں اور تربیت کے لیے قبائلی علاقوں میں ان کا آنا جانا رہتا ہے۔ کل 35 افراد نے شمالی وزیرستان میں تربیت حاصل کی جن میں سے 18 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔