خودکشی کا رجحان: علامات پہچانیے
مظہر* نہ ہی ہماری کلاس کا سب سے ذہین شاگرد تھا، اور نہ ہی سب سے زیادہ پڑھنے والا، لیکن وہ بیٹنگ میں اچھا تھا اور اسی لیے وہ مجھے یاد ہے۔
وہ الگ تھلگ سا تھا، اور اس تک ٹیچرز کی توجہ سب سے آخر میں ہی جاتی تھی۔ اسکول کے بعد میں نے کوئی بیس سالوں تک مظہر کے بارے میں کچھ نہیں سنا۔ اور جب مجھے اس کے بارے میں سننے کو ملا، تو یہ ایسی خبر تھی جس کے لیے ہم میں سے کوئی بھی تیار نہیں تھا۔
مظہر نے خود کو سر میں گولی مار لی تھی۔
جب میں نے سوشل میڈیا پر اس کے بارے میں پڑھا تھا، تو مجھے ناقابلِ یقین حد تک صدمہ پہنچا۔ پھر میں نے کچھ قریبی دوستوں سے رابطہ کیا لیکن کسی کو بھی واقعے کے بارے میں مجھ سے زیادہ علم نہیں تھا۔ لیکن پوچھ تاچھ کے ایک طویل سلسلے کے بعد ہم مظہر کی پریشانیوں کے بارے میں کچھ معلومات اکٹھی کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
پڑھیے: میں خود کو پاگل نہیں کہلوانا چاہتی تھی
یہ مدد کی پکار کرتے، پریشانی کے سگنل دیتے ایک شخص کی اداس لیکن سنی ہوئی کہانی تھی، جس کو مدد نہ مل سکی۔
مظہر اپنی بیوی کے ساتھ ایک دوسرے شہر میں رہتا تھا۔ شادی کے چھ سالوں بعد بھی ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی۔ اس کی بیوی نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی، اور یوں شادی اپنے اختتام کو پہنچنے والی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ مظہر آسانی سے غصہ ہوجانے والا اور غصے کا تیز ہے، اور کنٹرول رکھنا چاہتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ مظہر مزید الگ تھلگ ہوتا گیا، اور اس کے قریبی دوست بھی چھوٹ گئے۔ وہ قرضدار تھا، اور جو پیسہ وہ کماتا تھا، وہ کھانے اور دیگر گھریلو اخراجات میں ہی پورا ہوجاتا تھا۔
وہ کوئی وارننگ سگنل دیے بغیر نہیں مرا۔
اس نے اپنے پرانے دوستوں کو فون کیا، اور اپنی غلطیوں کی معافی مانگی، جس میں زیادہ تر چھوٹی چھوٹی باتوں پر تھیں۔
اس نے ان لوگوں کو فون کیا جن سے اس نے پیسے لیے تھے، اور کہا کہ وہ پیسے جلد ہی لوٹا دے گا۔
جب اس کی بیوی کا غصہ بڑھنے لگا، تو اس نے اس سے کہا کہ اسے اس کی آزادی جلد ہی مل جائے گی۔
اس نے ایک گن خریدی، اور وجہ یہ بتائی کہ وہ اپنی اور اپنی بیوی کی سیکیورٹی کو لے کر فکرمند ہے۔
موت سے کچھ دن پہلے اس نے شیو کرنی چھوڑ دی، اور جھاڑیوں جیسی بے ترتیب داڑھی رکھ لی۔
کئی ہفتوں تک وہ کام پر نہیں گیا، اور گھر پر رہ کر یا تو سوتا رہتا یا ٹی وی دیکھتا رہتا۔
مزید پڑھیے: ڈپریشن کی چند عام علامات
کسی نے بھی ان اشاروں پر توجہ نہیں دی۔ شاید اس سے فرق پڑتا، شاید نہ پڑتا۔ لیکن اب اس 'شاید' کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
جب ایک شخص خودکشی کرتا ہے، تو یہ صرف ایک زندگی کا اختتام نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ اس شخص کے دوستوں اور خاندان کے لیے زندگی بھر کا درد بن کر رہ جاتا ہے۔
یہ کہنا بہت آسان ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ مظہر کے بارے میں بھول جائیں گے، اور اپنی زندگی کی طرف لوٹ جائیں گے۔
میں حیران ہوں، کیا اس نے کبھی کسی سے اپنے جذبات شیئر کرنے کی کوشش کی؟ طبی مدد کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ہم اس کی موت کو روکنے کے لیے کیا مختلف کرسکتے تھے؟
مغربی ممالک میں اس طرح کے سوالات پوچھنے کو 'نفسیاتی پوسٹ مارٹم' کہتے ہیں۔ یہ کسی بھی خودکشی سے جڑے عوامل کا پتہ لگانے، اور مستقبل میں ایسے واقعات کو روکنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
امریکی سائیکولوجسٹ تھامس جوائنر اپنی کتاب 'Why people die by suicide' میں لکھتے ہیں کہ احساسِ محرومی اور دل کا بوجھ خودکشی کی چاہ پیدا کرنے کے لیے ذمہ دار ہیں۔ یہ افراد پھر موت کے قدرتی ڈر پر قابو پا کر خود کو مار لینے کی صلاحیت پیدا کر لیتے ہیں۔
مظہر کی کہانی بے مثل نہیں ہے۔ ہماری حد سے زیادہ مسابقتی اور لوگوں سے میل جول رکھنے والی دنیا کسی بھی ایسے شخص کے ساتھ ملنا جلنا پسند نہیں کرتی، جو خود تک محدود رہنا چاہتا ہو۔ اس معاملے میں پاکستان باقی دنیا سے مختلف نہیں ہے۔
جانیے: ڈپریشن سے متعلق 10 غلط فہمیاں
اور یہی وہ رویہ ہے جو سائیڈ لائن کردیے گئے لوگوں کے ڈپریشن کو بڑھاتا ہے، جو پہلے ہی اپنے آس پاس ہونے والی ہر چیز سے مکمل طور پر کٹ جانا چاہتے ہیں۔
ہماری سوسائٹی میں ہم شاید ہی ڈپریشن کو بیماری سمجھتے ہیں۔ اس کے بجائے ہم اسے کمزوری کی علامت سمجھتے ہیں۔ مردوں کے لیے 'احساسات' کے بارے میں بات کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے، کیونکہ احساسات کو عام طور پر خواتین کا خاصہ سمجھا جاتا ہے۔ 'مردوں' کو اس سے دور رہنا سکھایا جاتا ہے۔ اور اس طرح ایک قابلِ علاج بیماری ایک ایسی موت میں بدل جاتی ہے، جسے روکا جاسکتا تھا، اور کوئی یہ نہیں جان پاتا کہ غلطی کہاں پر ہوئی۔
پاکستان میں خودکشی کی شرح میں پچھلے کچھ سالوں کے دوران خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے، جبکہ اس میں زیادہ تعداد نوجوانوں اور بالغوں کی ہے۔ اس کی وجوہات کئی ہوتی ہیں، کیونکہ شادی کے تنازعات، غربت، بے روزگاری، استحصال، تشدد، ذہنی بیماریوں سمیت اس ملک میں مسائل کی کمی نہیں ہے۔
لیکن پھر بھی پاکستان میں خودکشی کے رپورٹ ہوئے اعداد و شمار ترقی یافتہ ممالک کی بہ نسبت کافی کم ہیں۔ اس معاملے میں مضبوط مذہبیت اور خاندانی تعلقات کو مددگار قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن کیونکہ پاکستان میں خودکشی کی کوشش قابلِ سزا جرم ہے، اس لیے خودکشی کے زیادہ تر اقدامات رپورٹ نہیں کیے جاتے، اور اس لیے یہ اعداد و شمار اصل اعداد و شمار سے کافی کم ہوتے ہیں۔
جانیے: خودکشی کی کوشش کرنے والی اہم شخصیات
ہم صرف اس بات کی امید کرسکتے ہیں کہ لوگ ڈپریشن اور خودکشی کے بارے میں اپنے رویوں پر نظرِ ثانی کریں، اسے مجرمانہ اقدام اور کردار کی کمزوری سے تعبیر کرنے کے بجائے اسے طبی مسئلہ قرار دیں، ڈپریشن کو الزام دینے کے بجائے ایسا معاشرہ بنائیں جو خودکشی کی وارننگ علامات کو جھٹکنے کے بجائے ان پر توجہ دیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ اگر میں مظہر کے ساتھ موجود ہوتا، تو اسے اس اقدام سے روک پانے میں کامیاب ہوتا یا نہیں۔
مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ ہم کئی مظہر روزانہ نظرانداز کردیتے ہیں، جبکہ انہیں توجہ دی جانی چاہیے۔
*پرائیویسی کے پیشِ نظر نام تبدیل کر دیا گیا ہے۔
آصف ایم احمد فری لانس بلاگر ہیں، اور ان کی خصوصی توجہ سماجی مسائل پر ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔