پاکستان

ٹی بی ویکسین کی قلت، لاکھوں بچوں کی صحت خطرے میں

پنجاب میں صورتحال خاصی پریشان کن ہے، جہاں ویکسین کا اسٹاک ختم ہوگیا ہے۔ قلت کی وجہ عالمی مارکیٹ میں عدم دستیابی ہے۔

لاہور: ملک بھر میں جان بچانے والی بی سی جی ویکسین کی قلت کی وجہ سے معمول کی حفاظتی مہم کے دوران لاکھوں کی تعداد میں بچوں کو تپ دق کی بیماری سے محفوظ نہیں بنایا جاسکا ہے۔

پنجاب میں یہ صورتحال کہیں زیادہ پریشان کن ہے، جہاں اس ویکسین کا اسٹاک ختم ہوگیا ہے، اس لیے کہ وفاق کے حفاظتی ٹیکوں کے توسیعی پروگرام (ای پی آئی) نے بی سی جی ویکسین اس صوبے کو فروری کے مہینے کے لیے فراہم نہیں کی تھی۔

واضح رہے کہ ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں پانچ سال سے کم عمر بچے آبادی کا 15.2 فیصد حصہ ہیں۔

وفاقی ادارے ای پی آئی نے واضح طور پر صوبوں کا آگاہ کردیا ہے کہ اس کو یہ مخصوص ویکسین یونیسیف سے موصول نہیں ہوئی ہے، اس کی بنیادی وجہ عالمی مارکیٹ میں اس کی عدم دستیابی ہے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ پہلی فروری سے لاکھوں بچے بی سی جی ویکسین سے محروم رہے ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان میں ہر سال پچاس لاکھ سے زیادہ تعداد میں بچے پیدا ہوتے ہیں۔

ای پی آئی پروگرام کے معمول کا حصہ ہونے کے تحت یہ بی سی جی ویکسین پاکستان کے ہر نومولود بچوں کو دیا جانا لازمی ہے۔ یہ ویکسین عالمی ادارۂ صحت کے بنیادی صحت کے نظام کی ضروری ادویات کی فہرست میں سب سے زیادہ اہم دوا کا درجہ رکھتی ہے۔

اس معاملے سے آگاہ ایک سینئر اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ جب 2014ء کے وسط میں تین مرتبہ ٹینڈر کے اشتہار دینے کے بعد اس ویکسین کی فراہمی سے مقامی کمپنیوں نے معذوری ظاہر کی تو وفاقی ادارے ای پی آئی سیل نے بی سی جی ویکسین کی فراہمی کے لیے یونیسیف کو آرڈر دیا تھا، تاکہ ملک بھر کی ضروریات پوری کی جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ بعد میں ای پی آئی نے بی سی جی کی ویکسین کی قلت کی وجہ سے صوبوں کو تین مہینے کے اسٹاک کی فراہمی کو کم کرکے نومبر سے صرف ایک مہینے کا اسٹاک دیا تھا۔

اسی دوران یونیسیف نے وفاقی حکومت کو اپریل 2015ء سے قبل اس ویکسین کی فراہمی کی یقین دہانی سے معذوری ظاہر کردی ہے، اس کی وجہ عالمی سطح پراس ویکسین کی عالمی پیداوار میں کمی آئی ہے۔

یونیسیف کی جانب سے پاکستان کو اب تک یہ ویکسین فراہم نہیں کی گئی ہے، اسی لیے وفاقی ادارے ای پی آئی کی جانب سے صوبوں کو فروری کے مہینے کے لیے مزید فراہمی نہیں کی جاسکی، چنانچہ لاکھوں بچوں کی صحت خطرے میں پڑ گئی ہے۔

مذکورہ اہلکار نے کہا ’’ہر نومولود بچے کو بی سی جی ویکسین دینا لازمی ہے، پاکستان کو ملکی ضرورت پورا کرنے کے لیے اس ویکسین کی 65 لاکھ خوراکوں کی اشد ضرورت ہے۔‘‘

اس معاملے کی سنگینی کے پیشِ نظر وفاقی حکومت نے یونیسیف پر اس مہینے کی ضرورت پورا کرنے کے لیے اس ویکسین کی فراہمی پر زور دیا ہے، تاکہ ٹی بی کی وباء سے بچا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ یونیسیف سے رعایتی قیمتوں پر خریداری کے بجائے کمپنیوں سے اس ویکسین کی خریداری کی وجہ سے وفاقی حکومت کو ایک ارب روپے کے اضافی مالی بوجھ کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔

مذکورہ اہلکار نے کہا کہ ’’یہ عالمی ادارہ صحت کی پری کوالیفائیڈ ویکسین ہیں، اور ان کی خریداری کے لیے پی پی آر اے کے قوانین لاگو کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ کئی ممالک سالوں کے لیے یہ حفاظتی ویکسین براہ راست اقوامِ متحدہ سے حاصل کررہے ہیں۔

پنجاب میں ای پی آئی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر منیر احمد نے ڈان کو بتایا کہ ان کے شعبے کی جانب سے وفاقی ادارے ای پی آئی کے حکام کو صوبے بھر میں بی سی جی ویکسین کی قلت کے بارے میں بروقت مطلع کردیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ان کے شعبے کا وفاقی حکام کے ساتھ رابطہ تھا تاکہ بچوں کے وسیع تر مفاد میں اس بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔

پنجاب میں محکمہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر زاہد پرویز نے بتایا کہ اگرچہ صوبے میں بی سی جی ویکسین کی قلت کا سامنا ہے، تاہم اس ویکسین کا ان اضلاع سے انتظام کیا جارہا ہے، جہاں پرانا اسٹاک اب بھی دستیاب ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی، جب متعلقہ کمپنیاں وفاقی ضروریات کی فراہمی کو پورا کرنے میں ناکام ہوگئیں۔