پاکستان

ججز اور فوجیوں کی دہری شہریت پر پابندی کے مسودہ بل کی منظوری

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے دہری شہریت پر پابندی سمیت کئی اہم بلوں کے مسودوں کی منظوری دی ہے۔

سینیٹ کی ایک قائمہ کمیٹی نے جمعرات کو دو اہم آئینی ترمیمی بلوں کے مسودے کی منظوری دے دی ہے جس میں سے ایک ججز، مسلح افواج کے افسران اور حکومتی عہدیداران پر دوہری شہریت رکھنے پر پابندی سے متعلق ہے۔

پیپلزپارٹی کے سینیٹر کاظم خان کی سربراہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے جس دوسرے بل کی منظوری دی اس میں اعلیٰ عدلیہ کا دائرہ اختیار قبائلی علاقوں تک پھیلانے کی سفارش کی گئی ہے۔

کمیٹی نے انسداد زیادہ قوانین بل 2014 کی بھی منظوری دی جسے پیپلزپارٹی کی رکن صغریٰ امام نے پیش کیا تھا تاکہ جنسی زیادتی کی شکار خواتین کے مقدمات کو تیزرفتاری سے نمٹانے کو یقینی بنانے کے ساتھ اس بات کی تجویز دی گئی ہے کہ دوران حراست کسی کو زیادتی کا نشانہ بنانے پر پولیس افسران اور سرکاری ملازمین کو بھی سزائیں دی جائیں۔

پہلے بل میں آئین کی شقوں 177 اور 193 میں ترامیم کرتے ہوئے تجویز دی گئی ہے کہ دہری شہریت کے حامل افراد سپریم کورٹ یا اعلیٰ عدلیہ کے جج نہیں بن سکتے۔

ایک اور ترمیم میں کہا گیا ہے " سروس آف پاکستان کا حصہ کوئی بھی کسی دوسرے ملک کی شہریت رکھنے کا مجاز نہیں"۔

اس ترمیم کے تحت سرکاری ملازمین اور مسلح افواج کے اہلکاروں پر دہری شہریت رکھنے پر پابندی کی تجویز دی گئی ہے۔

تاہم اس بل میں دہری شہریت کے حامل افراد کو ججز یا سول و مسلح افواج میں شمولیت کا اہل قرار دیا گیا " اگر وہ اس قانون کے نفاذ کے بعد ساٹھ روز کے اندر کسی دوسرے ملک کی شہریت سے دستبردار ہوجائیں"۔

یہ بل پیپلزپارٹی کے رضا ربانی اور صغریٰ امام نے گزشتہ سال چھ جنوری کو سینیٹ میں اس وقت پیش کیا تھا جب مختلف اعلیٰ عدالتوں نے دہری شہریت رکھنے والے ججز کی تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کردیا تھا۔

اس وقت فوجی قوانین کے تحت کسی بھی فرد پر دہری شہریت رکھنے پر پابندی عائد ہے مگر اس بل کی منظوری کے بعد یہ آئینی پابندی بن جائے گا۔

انسداد زیادتی قوانین : کمیٹی نے ایک اور اہم بل کی منظوری دی ہے جس میں پاکستانی پینل کوڈ 1860، قانون شہادت آرڈر 1984 اور کوڈ آف کرمنل پروسیجر 1898 کی متعدد شقوں میں ترامیم کی سفارش کی گئی ہے تاکہ زیادہ کے مقدمات میں تیز تر ٹرائل کو یقینی بنایا جاسکے اور متاثرین کی شناخت افشا کرنے والوں کو بھی سزاﺅں کی سفارش کی گئی ہے۔

بل میں کہا گیا ہے " جو بھی کسی متاثرہ فرد کا نام پرنٹ یا شائع کرے یا کوئی بھی ایسی چیز جس سے متاثرہ فرد کی شناخت ہوسکے تو یہ سیکشن 376 کے تحت جرم ہوگا اور اسے تین سال قید یا جرمانے کی سزا سنائی جاسکے گی"۔

بل میں عدالتی کارروائی کی اشاعت پر بھی پابندی لگائی گئی ہے " متعلقہ عدالت کی منظوری کے بغیر اس قسم کی اشاعت پر دو سال قید کی سزا کی سفارش کی گئی ہے"۔

اس بل میں یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ دوران حراست کسی خاتون کو زیادتی کا نشانہ بنانے والے پولیس عہدیدار یا دیگر سرکاری ملازمین کو سزائے موت سنائی جائے۔

بل میں زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین کے طوری طبی معائنے اور ملزم کے ڈی این اے ٹیسٹ اور طبی معائنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔

بل میں ان کیمرہ ٹرائل کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عدالتیں زیادتی کے مقدمات کا فیصلہ چھ ماہ میں سنانے کی پابندی ہوگی۔

اسی طرح بل میں ایسے سرکاری ملازم کو تین سال قید کی تجویز پیش کی گئی ہے جو مناسب تفتیش کرنے سے قاصر رہے یا دانستہ یا غیردانستہ طور پر عدالت میں مناسب طریقے سے مقدمے کی کارروائی آگے بڑھانے میں ناکام رہے۔

عدالتی دائرہ اختیار : کمیٹی نے متفقہ طور پر ایک اور آئینی ترمیمی بل کی منظوری دی جو پیپلزپارٹی کے فرحت اللہ بابر نے پیش کیا تھا۔

اس بل میں سپریم کورٹ اور اعلیٰ عدلیہ کا دائرہ اختیار قبائلی علاقوں تک توسیع دینے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

اس بل میں آئین کی شق 247 کے کلاز سات کو کالعدم قرار دینے کا کہا گیا ہے جو اعلیٰ عدلیہ کو قبائلی علاقوں کے رہائشیوں کو بنیادی حقوق کی فراہمی سے روکتا ہے۔

خیال رہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی نے 2012 میں متفقہ طور پر ایک قرارداد کی منظوری دیتے ہوئے صدر اور وفاقی حکومت پر زور دیا تھا کہ قبائلی علاقوں کے رہائشیوں کو ملک کے ہر شہری کے مساویٰ حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔