محمد یوسف! آپ غلط کہتے ہیں
اب تو یہ روز کا معمول بن گیا ہے۔ جب بھی میں پورے دن کام کے بعد آرام سے صوفے پر لیٹ کر ٹی وی دیکھنے لگتا ہوں تو اسکرین پر آپ کا چہرہ دکھائی دیتا ہے۔
آپ پاکستانی کپتان مصباح الحق پر تنقید کر رہے ہوتے ہیں جیسا کہ آپ پچھلے کئی سالوں سے لگاتار کر رہے ہیں۔
یوسف صاحب، 90 سے زائد ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی نمائندگی کرنے اور ایک شاندار کریئر رکھنے کی بنا پر آپ کا حق ہے کہ آپ ان پر تنقید کریں، لیکن آپ کے حملے دن بدن زیادہ ہی ذاتی نوعیت کے ہوتے جا رہے ہیں۔ آپ کی تنقید کا الٹا اثر ہو رہا ہے۔ لوگ اب آپ پر سوالات اٹھانے لگے ہیں۔
پڑھیے: دو متضاد کپتان
ان کے بارے میں آپ کی تازہ ترین تنقید یہ ہے کہ وہ نمبر تین کی حساس پوزیشن پر بیٹنگ نہیں کر رہے، اور یہ کہ ان کے پاس ٹیم میں روح پھونک دینے والا جوش و جذبہ موجود نہیں ہے۔
یوسف صاحب مجھے یقین ہے کہ پاکستان کا شہری ہونے کے ناطے آپ نے اکثر بجلی جانے کی کوفت جھیلی ہو گی۔ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ آپ کے گھر میں یو پی ایس ہوگا تاکہ بجلی جانے کی صورت میں ضروری لائٹیں اور پنکھے چلتے رہیں۔
سر میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر لائٹ چلی جائے، اور آپ صرف ضروری پنکھوں اور لائٹوں کے بجائے سارے گھر کی اپلائنسز کا بوجھ یو پی ایس پر ڈال دیں، تو؟
اس وقت مصباح الحق ہی سب سے قابلِ اعتماد کھلاڑی ہیں، اور اگر آپ نے انہیں ٹاپ آرڈر میں بھیجا، اور وہ نئی بال کے سامنے ناکام ہو گئے، تو ہماری ٹیم ایسی بکھرے گی کہ سب کو مرمت کے لیے صدر بھیجنا پڑے گا۔
یوسف صاحب اس سے بھی زیادہ یہ کہ آپ نے تمام کریئر مڈل آرڈر ہی میں کھیلا، اور جب ٹیم کو آپ کی ضرورت تھی، آپ تب بھی نمبر تین پر آنے کو تیار نہیں ہوئے۔ تعمیری تنقید میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن عملی حل پیش کیے بغیر تنقید کرنا بہت ہی چھوٹی حرکت ہے۔
اور اس کی واضح ترین مثال یہ ہے کہ آپ نے مصباح الحق کو سعید اجمل سے تبدیل کرنے کی بھی تجویز کئی بار دی ہے۔ اجمل عمر میں تقریباً مصباح الحق جتنے ہی بڑے ہیں، اور وہ تو بیٹسمین بھی نہیں ہیں، اس لیے وہ 'آگے بڑھ کر قیادت کرنے' کی آپ کی خواہش پر بھی پورے نہیں اتر پاتے۔ اگر آپ اپنے یو پی ایس سے مطمئن نہیں ہیں تو کیا آپ اسے پھینک کر ایک اور پرانا یو پی ایس خرید لیتے ہیں یا تب تک انتظار کرتے ہیں جب تک آپ جنریٹر خرید سکیں؟
مزید پڑھیے: مصباح الحق یا نواز شریف، کس کا استعفیٰ ضروری؟
لیکن آپ کے جس تبصرے سے مجھے سب سے زیادہ دھچکا لگا، وہ یہ کہ 'مصباح کی بیٹنگ تکنیک عجیب ہے، وہ زبردست اننگز کھیلنے کی طاقت نہیں رکھتے، انہیں رنز بنانے کے لیے بہت گیندیں درکار ہوتی ہیں اور ان کی بیٹنگ کا اثر اب باقی کھلاڑیوں میں بھی نظر آنے لگا ہے۔'
جناب آپ کون سے پاکستان کی بات کر رہے ہیں؟ میں تو توقع ہی کر سکتا ہوں کہ کبھی مصباح الحق کی تکنیک عمر اکمل اور شاہد آفریدی جیسے جذباتی کھلاڑیوں میں نظر آنی شروع ہو، جو ہمیشہ اپنے مزاج کے مطابق ہی کھیلنا پسند کرتے ہیں۔
ایسے تبصروں سے یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کیا پروفیشنل حسد موجود ہے؟ کیا آپ انہی کے ہم عمر نہیں جو آپ کو اتنا کھٹک رہے ہیں؟ کیا وہ آپ سے زیادہ فٹ ایتھلیٹ نہیں؟ کیا وہ اس وقت ٹی 20 میں زبردست کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے تھے جب آپ کو باہر کا راستہ دکھایا جا رہا تھا؟
لیکن اس سے پہلے کہ میں اس خط کا اختتام کروں، میں آپ سے آپ کی کپتانی کے بارے میں سوال پوچھنا چاہوں گا:
غلطیوں سے پاک محمد یوسف صاحب، ذرا بتائیں گے کہ سڈنی ٹیسٹ میں کیا ہوا تھا؟
میں بتاتا ہوں کہ کیا ہوا تھا۔ آخری اننگز میں 257 پر آٹھ وکٹیں گنوا کر آسٹریلیا بالکل شکست کے قریب پہنچ چکا تھا۔ لیکن تب ہی آپ نے فیلڈ پھیلا کر جارحانہ فیلڈنگ کو شدید دفاعی فیلڈنگ میں تبدیل کر دیا۔ اور پھر انہیں ایسا ریلیف ملا کہ انہوں نے فوراً ہی اپنا اسکور 381 تک پہنچا دیا۔ آپ کی اس حکمتِ عملی کی وجہ سے وہ 176 رنز کا اضافہ کرنے میں کامیاب رہے۔
|
میں بچپن میں ڈبلیو ڈبلیو ای ریسلنگ دیکھا کرتا تھا اور مجھے یاد ہے کہ انڈرٹیکر جیسا ریسلر بھی دو سے زیادہ فنشنگ مووز کے بعد اٹھ نہیں پاتا تھا، اور یہاں تو آسٹریلیا بالکل جان سینا کی طرح اٹھ کھڑا ہوا۔
جانیے: خدارا مزید تجربات نہ کریں
اس وقت آپ کو جوش و جذبہ کہاں تھا؟
یقیناً آپ کو یاد ہوگا کہ آپ نے میچ کے دوران مڈل آرڈر میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا، اور فیصل اقبال جیسے کھلاڑی کو نمبر 3 پر بھیج دیا تھا۔
دوسری جانب مصباح الحق نے ایک ناتجربہ کار ٹیم کے ساتھ بھی ناقابلِ یقین اور یادگار فتوحات سمیٹی ہیں۔ وہ بھلے ہی نمبر پانچ پر بیٹنگ کرتے ہوں، لیکن وہ ہمیشہ آگے بڑھ کر قیادت کرتے ہیں، اور ٹیم کی ان کے لیے عزت قابلِ دید ہے۔ آپ ان کی قیادت کی تعریف تب کیوں نہیں کرتے جب وہ کامیاب ہوتے ہیں؟
یوسف صاحب آپ مصباح الحق کے بارے میں غلط ہیں، کیونکہ ان کے پاس شیر جیسا جوش و جذبہ ہے، اور وہ تب بھی نہیں لڑکھڑاتے جب ڈھیروں لگڑ بگڑ ان کی ٹانگوں سے چمٹ جاتے ہیں۔
اور اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ میں اس مسئلے پر بولنے کی اہلیت نہیں رکھتا، تو ذرا یہ دیکھیے کہ اپنے حالیہ انٹرویو میں عاقب جاوید کا کیا کہنا تھا:
'یہ پورا کیس خراب ٹیم مینیجمنٹ کا ہے۔ کپتان کو ہٹانے کے لیے ایک مضبوط وجہ موجود ہونی چاہیے۔ اگر آپ مصباح الحق کی کپتانی کو موازنہ ان سے کریں جو روزانہ ٹی وی پر آ کر ان پر تنقید کرتے ہیں، تو آپ دیکھ لیں گے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔ محمد یوسف ہمیشہ ہی مصباح کے خلاف بولتے رہتے ہیں۔ شعیب اختر ہمیشہ ٹی وی پر مصباح کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ یہ لوگ آخر چاہتے کیا ہیں۔'
نعمان انصاری فری لانس لکھاری ہیں اور کئی اشاعتوں، بشمول امیجز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل اپنے فینٹیسی ناول پر کام کر رہے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: @pugnate
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔