کھیل

خدارا مزید تجربات نہ کریں، میانداد

ویسٹ انڈیز اور پاکستان کے درمیان میچ میں جس ٹیم کو شکست ہوئی، اس کا کوارٹر فائنل تک سفر انتہائی دشوار ہو جائے گا۔

آئی سی سی ورلڈ کپ کے گروپ بی میں ویسٹ انڈیز اور پاکستان کے درمیان ہونے والے میچ میں جس ٹیم کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا، اس کا کوارٹر فائنل تک سفر انتہائی دشوار ہو جائے گا۔ حکمت عملی سے عاری پاکستانی ٹیم کو روایتی حریف ہندوستان کے خلاف شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد خطرے کی گھنٹی انتہائی زور و شور سے بج چکی ہے اور اب آئرلینڈ کی جانب سے ویسٹ انڈیز کے خلاف 300 رنز کے ہدف کے کامیاب تعاقب کے بعد یہ گروپ اب گروپ آف ڈیتھ کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔

آئرلینڈ کی شاندار فتح سے یہ بات ایک بار پھر ثابت ہو گئی کہ ٹیسٹ کھیلنے والی ٹیموں کے علاوہ بقیہ ٹیمیں بھی 50 اوورز کے فارمیٹ کو تیزی سے سیکھ رہی ہیں اور اب وہ کسی طور پر کمسن نہیں رہیں۔ اب دباؤ پول بی کی ’بگ فور‘ پر ہے اور زمبابوے یا آئرلینڈ کی جانب سے ایک اور اپ سیٹ اس گروپ میں کوارٹر فائنل مرحلے تک رسائی کے لیے دیگر ٹیموں کے لیے دروازے کھول سکتا ہے۔

اپنے افتتاحی میچوں میں فتح کے بعد جنوبی افریقہ اور ہندوستان کی ٹیمیں یقینی طور پر ناک آؤٹ مرحلے تک رسائی کے لیے فیورٹ نظر آرہی ہیں۔ اتوار کو یہ دونوں ٹیمیں مدقابل ہوں گی اور میچ کے فاتح سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ ان میں سے کون سی ٹیم پول بی میں ٹاپ کرے گی۔

مجھے یاد نہیں پڑتا کہ اس سے قبل کسی بھی ورلڈ کپ میں پاکستان کی اتنی کمزور ٹیم شریک ہو جتنی کہ اس ورلڈ کپ میں شریک ہے۔ یہ اس لیے نہیں کہ دیگر ٹیمیں مضبوط ہیں بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے شعیب ملک، اظہر علی اور ذوالفقار بابر جیسے کھلاڑیوں کو نظر انداز کیا جو ٹیم میں جگہ پانے کے حقدار تھے۔

یہ اس طرح کے بڑے مقابلے کے لیے پاکستانی تھنک ٹینک کی حکمت عملی کے فقدان کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ کوئی پانچ میچوں کی دوطرفہ سیریز نہیں جس یں ٹیم ایک یا دو میچوں میں تجربات کرے، ٹیم کو ہر کام کے لیے اسپیشلسٹ کھلاڑی کا انتخاب کرنا چاہیے۔ میں امید کرتا ہوں کہ ٹیم مینجمنٹ نے سبق سیکھ لیا ہو گا اور ہفتے کو ویسٹ انڈیز کے خلاف نہیں ڈگمگائے گی۔

ناصر جمشید کو بطور متبادل اوپنر ابتدائی اسکواڈ میں ہونا چاہیے تھا اور اب جبکہ وہ متبادل کے طور پر اسکواڈ کا حصہ بن چکے ہیں تو باہر بٹھانے کے بجائے انہیں احمد شہزاد کے ساتھ اوپننگ کرانی چاہیے۔

شاید میں وہ آخری شخص ہوں جو یونس خان کو فائنل الیون میں نہ رکھے۔ کون سا ایسا بلے ابز ہے جس کی خراب فارم نہ ہوتی ہو لیکن یونس کو بطور اوپننگ بلے باز استعمال کرنا اتنے باصلاحیت بیٹسمین کے ساتھ ناانصافی ہے۔ ابتدائی چار بیٹنگ پوزیشن انتہائی خاص پوزیشن ہوتی ہیں اور وہ کھلاڑی جو فارم میں ہیں انہیں اس پوزیشن پر کھیلنے کے لیے آگے آنا چاہیے۔ اگر یونس کو فائنل الیون یں رکھنا ہے تو انہیں نیچے کے نمبروں پر کھلانا چاہیے جبکہ گیند پرانی ہو چکی ہو۔

پاکستان کو عمر اکمل کو ویسٹ انڈیز کے خلاف وکٹ کیپر اور بلے باز کے دہرے کردار کے ساتھ برقرار رکھنا چاہیے لیکن سرفراز احمد کی جلد از جلد ٹیم میں اپسی بہتر ہے کیونکہ اس سے اسپیشلسٹ وکٹ کیپر کو اعتماد ملے گا جو نچلے نمبروں پر جارحانہ بلے بازی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔

آئرلینڈ سے ہارنے کے باوجود ویسٹ انڈیز یہ بات ثابت کر چکا ہے کہ ان کی بیٹنگ میں بہت گہرائی ہے جہاں سنچری بنانے والے لینڈل سمنز اور ڈیرن سیمی نے نچلے نمبروں پر جارحانہ بلے بازی کی۔

مجھے نہیں لگتا کہ آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ 2015 میں سفید گیند بلے بازوں کو زیادہ پریشان کر رہی ہے اور پاکستان کے لیے بہتر یہی ہو گا کہ وہ ویسٹ انڈیز کے میچ میں تیسرا اسپنر نہ کھلائیں کیونکہ یہ ٹیم پر اضافی بوجھ ہو گا۔

پاکستان کو اپنے بلے بازوں پر زیادہ اعتماد نہیں اور کپتان مصباح الحق کے علاوہ بقیہ تمام بیٹسمین آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہونے میں جدوجہد کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس لیے ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ شاہد آفریدی کے ساتھ بائیں ہاتھ کے اسپنر حارث سہیل پر انحصار کیا جائے اور یاسر شاہ کو باہر بٹھایا جائے۔

ڈیوین براوو اور کیرون پولارڈ کے بغیر بھی ویسٹ انڈیز کے پاس ٹاپ آرڈر میں کرس گیل اور مارلن سیمیولز جیسے دو تجربہ کار بلے باز ہیں۔ میرے لیے یہ بات تعجب سے کم نہ تھی کہ آئرلینڈ کے خلاف کرس گیل نے پانچ درجن گیندیں کھیلنے کے باوجود صرف 36 رنز اسکور کیے۔ وہ ایسی بیٹنگ کے عادی نہیں ہیں۔ انہیں ٹاپ آرڈر پر اپنے روایتی جارحانہ انداز میں بیٹنگ کرنے کی ضرورت ہے اور اگر یہ تجربہ ناکام رہے تو ویسٹ انڈٰیر کے پاس اچھا مجموعہ تشکیل دینے کے لیے کافی بیٹسمین موجود ہیں۔

ویسٹ انڈیز نے جیسن ہولڈر جیسے نوجوان کھلاڑی کو کپتان مقرر کیا جو میرے خیال میں ایک اور برا فیصلہ ہے۔ بڑے ایونٹ میں آپ کسی نوجوان کھلاڑی کو قیادت سونپ کر مشکلات سے دوچار کرنے کے بجائے کسی تجربہ کار کھلاڑی کو کپتان مقرر کرتے ہیں۔ ہولڈر میں قیادت کی صلاحیت ہو سکتی ہے لیکن پہلے انہیں دوطرفہ سیریز میں خود کو ثابت کر کے کچھ تجربہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

ہولڈر آئرلینڈ کے خلاف بالکل بے بس دکھائی دیے اور انہوں نے آئرش بلے بازوں کو آؤٹ کرنے کے لیے متعدد باؤلرز کا استعمال کیا، انہوں نے آٹھ باؤلرز کا استعمال کیا جن میں سے کسی نے بھی اپنے کوٹے کے پورے 10 اوورز مکمل نہ کیے، یہ بات ہولڈر کی ناتجربہ کاری کی نشاندہی کرتی ہے۔

کرائسٹ چرچ کا میچ دن میں کھیلا جائے گا اس لیے یہ ویسٹ انڈین فاست باؤلرز کے سازگار ثابت ہو سکتی ہے، پاکستان کو ان کے خلاف جیت کے لیے صحیح کمبی نیشن کے ساتھ میدان میں اترنے کی ضرورت ہے، خدارا مزید تجربات سے گریز کریں۔

(یہ تحریر عظیم پاکستانی بلے باز جاوید میانداد کی ہے جو انہوں نے آئی سی سی کے لیے لکھی)