طاقت کا کھیل اور سودے بازی
ہم لوگ آرمی پبلک اسکول پشاور، شکارپور حملہ، پشاور کی امامیہ مسجد، اور بلدیہ ٹاؤن فیکٹری جیسے سانحات سے بار بار گزرتے رہیں گے کیونکہ تشدد کا جواز پیش کرنا ہماری سوسائٹی کی رگوں میں رچ بس گیا ہے۔ ظلم و بربریت بذاتِ خود مسئلہ نہیں ہے۔ ہمارا معاشرہ اور ریاست صرف اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ یہ کن مفادات کو نقصان پہنچاتا ہے اور کن کو فائدہ۔ ہم یہ سوال پوچھتے ہیں کہ آیا تشدد مذہبی بنیاد پر کیا گیا، یا فرقے، زبان، طاقت، غیرت، یا قومی سلامتی کے نام پر۔ ہمیں تشدد ختم کرنے کے لیے صرف اور صرف ایک کلیے پر عمل کرنا ہو گا، کہ 'اپنا بازو گھمانے کا آپ کا حق وہاں ختم ہوجاتا ہے جہاں میرا چہرہ شروع ہوتا ہے۔'
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ضربِ عضب اس لیے ضروری تھا کیونکہ فعال ریاستیں کسی کو تشدد اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتیں۔ کیا یہی منطق فرقہ وارانہ گروہوں اور کراچی پر لاگو نہیں ہوتی؟ ہم اب ایک سیریل کلر کے اعترافات پڑھ چکے ہیں جس نے ایم کیو ایم سے وابستگی کا دعویٰ کیا (جسے ایم کیو ایم نے مسترد کیا) اور جس نے الزام عائد کیا کہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کا سانحہ ایم کیو ایم کی کارستانی تھی تاکہ فیکٹری مالکان کو بھتہ نہ دینے پر سبق سکھایا جا سکے۔
پڑھیے: رینجرز رپورٹ: سانحہ بلدیہ ٹاﺅن میں ایم کیو ایم ملوث قرار
جے آئی ٹی کی رپورٹ کی ثبوت کے طور پر کوئی حیثیت نہیں ہے، کیونکہ رضوان قریشی کا بیان سنی سنائی بات پر مبنی ہے۔ ہر شخص تب تک بے گناہ ہے جب تک اسے مجرم ثابت نہ کر دیا جائے اور ایم کیو ایم یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ اس رپورٹ کی بنا پر اس کا میڈیا ٹرائل غلط ہے۔ لیکن جے آئی ٹی کی رپورٹ، ایم کیو ایم کا ردِ عمل، اور فیکٹری کا سانحہ، سب مل کر اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہماری ریاست کی ساکھ کس قدر گر چکی ہے، ہمارے آئین کا عوام کی جان و مال کے تحفظ کا وعدہ بے معنی ہے، اور کس طرح ہمارے معاشرے نے ان تلخ و بدصورت حقائق کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔
جے آئی ٹی رپورٹ نے جو ہلچل مچائی ہے، وہ اپنی قانونی حیثیت کی بنا پر نہیں، بلکہ اس کے مواد کی وجہ سے ہے۔ یہ خوف و تشدد سے بھرپور کراچی کے انڈر ورلڈ پر روشنی ڈالتی ہے جس میں ٹارگٹ کلنگ، مارکیٹس بند کروانا، ہائی پروفائل لوگوں کا قتل (بشمول شاہی سید اور نمایاں ٹی وی اینکرز)، بھتہ خوری، اور بلدیہ کالونی کی آتشزدگی شامل ہیں۔
قانونی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو جے آئی ٹی کی رپورٹ کا صرف ایک استعمال ہے اور وہ یہ کہ اس میں نام، جگہیں، اور تاریخیں موجود ہیں جن کی بنا پر مزید تحقیقات کی جا سکتی ہیں۔ خوفناک تو وہ باتیں ہیں، جو اس رپورٹ میں شامل نہیں ہیں۔ پہلی یہ کہ ریاست (بشمول آئی ایس آئی، رینجرز، آئی بی، ایف آئی اے، اور پولیس) کو جب (23 جون 2013) یہ معلومات حاصل ہوئیں، تب سے لے کر اب تک اس نے رپورٹ کی سچائی جاننے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ دوسرا، ایم کیو ایم کا انتہائی جذباتی ردِ عمل جوابات کے بجائے سوالات اٹھا رہا ہے۔
ایم کیو ایم درست کہتی ہے۔ جے آئی ٹی رپورٹ بلدیہ کے بارے میں نہیں ہے (صرف ایک پیراگراف بتاتا ہے کہ رضوان قریشی کے مطابق بلدیہ آتش زنی اور بھتے کا کیس ہے)۔ معاملے پر ایف آئی اے کی رپورٹ نے آگ لگنے کے تمام اسباب کو مسترد کرتے ہوئے اسے حادثاتی قرار دیا تھا۔ اس نے بھتے کے امکانات بھی جھٹلا دیے کیونکہ فیکٹری مالکان نے بھتے کی کوئی شکایت درج نہیں کروائی۔
مزید پڑھیے: الطاف حسین نے سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی رپورٹ مسترد کردی
بلدیہ سانحے کے اسباب پر زاہد علوی جوڈیشل کمیشن رپورٹ بھی خاموش ہے۔ مضبوط اور فیصلہ کن ثبوت کی عدم موجودگی میں یہ صرف اتنا کہتی ہے کہ "ہو سکتا ہے کہ آگ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی ہو۔" دلچسپ بات یہ ہے کہ فیکٹری مالکان آگ کی وجوہات جاننے کے لیے فارنسک ٹیسٹ کروانے پر زور دے رہے ہیں۔ 19 دسمبر 2012 کو سندھ ہائی کورٹ نے یہ ٹیسٹ کروانے کا حکم دیا تھا۔ کورٹ کے احکامات کے باوجود آج تک ایسا کوئی بھی ٹیسٹ نہیں کیا گیا ہے۔
تو جن کا نام جے آئی ٹی رپورٹ میں ہے اور جن پر ایم کیو ایم سے وابستگی کا الزام ہے (اصغر بیگ، رحمان بھولا، حماد صدیقی، اور فاروق سلیم) سے کبھی تفتیش کی گئی؟ ایم کیو ایم حقیقی کے آفاق احمد کے پاس فروری 2014 میں جے آئی ٹی رپورٹ کیسے پہنچی جب انہوں نے پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا کہ ایم کیو ایم نے بھتے کے لیے بلدیہ فیکٹری کو آگ لگائی؟ انہوں نے مزید الزام لگایا کہ گورنر سندھ اور ایک ایم کیو ایم وزیر اس میں شامل تھے، ججز کو خوفزدہ کیا گیا تھا، جبکہ فیکٹری مالکان کی ضمانت کروانے کے لیے وزیرِ اعظم کو بیچ میں آنا پڑا تھا۔
ریکارڈ کے مطابق فیکٹری مالکان کی شروع میں ضمانت نہیں کی جا رہی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ وزیرِ اعظم ایوانِ صنعت و تجارت کراچی کے سرکردہ افراد سے ملے جنہیں فیکٹری مالکان کے ساتھ ہونے والے سلوک پر تشویش تھی۔ پولیس کی جانب سے ضمنی چالان جمع کروایا گیا جس میں ایم کیو ایم کی جانب سے درج کروائی گئی ایف آئی آر میں فیکٹری مالکان پر لگائے گئے قتل کے الزامات کو خارج کر دیا گیا۔ اس کے بعد ہی فیکٹری مالکان کی ضمانت ہو پائی۔
کراچی خوف کے سائے تلے جی رہا ہے۔ کیا متحدہ اس خوف میں اضافہ نہیں کر رہی۔ کیا 12 مئی 2013 کو الطاف بھائی نے مخالفین (بشمول پی ٹی آئی) کی ہڈیاں توڑنے اور کراچی کی تین تلوار کو حقیقی تلواروں میں بدل دینے کی دھمکی نہیں دی تھی؟ کیا انہوں نے میڈیا کو نتائج بھگتنے کی دھمکیاں نہیں دی ہیں؟ کیا انہوں نے دسمبر 2014 میں باؤ انور کے قتل کے بعد پنجابی لیڈروں کا سندھ میں داخلہ روکنے کی دھمکی نہیں دی تھی؟ کیا انہوں نے ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کو کراچی کی زمینیں بیچ کر پیسہ کمانے کے الزامات پر معطل نہیں کر دیا تھا؟
کیا ایم کیو ایم لوگوں میں خوف بٹھانا چاہتی ہے، یا لوگوں کے دل جیتنا چاہتی ہے؟ مشیولی نے خوف کو ترجیح دی تھی: لوگوں کے دلوں میں خوف بٹھایا جا سکتا ہے، محبت نہیں۔ نقصان پہنچانے کی ایم کیو ایم کی قابلیت پر عوامی یقین ہماری اسٹیبلشمنٹ کی سازش ہے، یا ایم کیو ایم کے اپنے اقدامات کا نتیجہ ہے تاکہ اس کی دھمکیاں اثر انگیز رہیں اور اس کا اثر و رسوخ جس کی بنیاد خوف پر ہے، قائم رہے؟ اگر بلدیہ کیس پر مزید تفتیش نہیں کی جاتی، تو کیا رضوان قریشی کی کہانی اور اس کی قانونی حیثیت مل کر ایم کیو ایم کے اثر و رسوخ کو نقصان پہنچائیں گے یا فائدہ؟
جانیے: سانحہ بلدیہ: سرکاری وکیل کیس سے علیحدہ
دو جنرلوں نے گذشتہ ہفتے بیانات دیے ہیں۔ مشرف نے بتایا کہ کس طرح انہوں نے طالبان کو ہندوستان کے خلاف تیار کیا۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ہندوستان کو اپنے ملک کے اندر اپنی پراکسیز کے خلاف جنگ لڑنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن پاکستان کو ہے۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی نے کہا کہ پاکستان کو شاید اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کا علم تھا، اور وہ اسے سودے بازی کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا۔ کیا یہ ذہنیت کسی نارمل ریاست کی ذہنیت ہے؟
کیا آئی ایس آئی کو اسامہ بن لادن کے بارے میں معلوم تھا؟ کیا اس کی حراست میں وہ دو اشخاص ہیں جو برطانوی حکام کو ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں مطلوب ہیں؟ ہمیں کبھی معلوم نہیں ہو گا۔ لیکن جو ہمیں معلوم ہے وہ یہ ہے کہ اگر یہ دونوں باتیں درست ہیں، تو یہ معلومات اور یہ حراست صرف ہماری اشرافیہ کے طاقت کے کھیل میں سودے بازی کے لیے استعمال ہوں گی، نہ کہ کسی درست کام کے لیے۔ سپریم کورٹ کا کراچی بد امنی کیس میں حکم، اور سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز پر اس کا زور یاد ہے؟
جے آئی ٹی کی تازہ ترین رپورٹ کا استعمال ایم کیو ایم سے سودے بازی کے لیے کیا جائے گا، اس سے پہلے کہ یہ بھلا دی جائے۔ شاید یہ فیکٹری مالکان کو لاحق خطرہ ختم کر دے، لیکن کراچی ایسے ہی جلتا رہے گا۔
لکھاری وکیل ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر babar_sattar@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
sattar@post.harvard.edu
یہ مضمون ڈان اخبار میں 16 فروری 2015 کو شائع ہوا۔
موبائل فون استعمال کر رہے ہیں؟ ڈان کی موبائل ایپلی کیشن حاصل کیجیے: ایپل اسٹور | گوگل پلے