پاکستان

عہدے دار کی ہلاکت، اہل سنت والجماعت کا شاہراہ دستور پر دھرنا

اہلِ سنت والجماعت کے سربراہ احمد لدھیانوی نے مطالبہ کیا کہ ان کے کارکنان کے قاتلوں کو پھانسی پر لٹکایا جائے۔

اسلام آباد: اتوار کو پیرودھائی کے قریب ایک حملے میں اہلِ سنت وا لجماعت (اے ایس ڈبلیو جے) کے ایک عہدے دار ہلاک ہوگئے، جبکہ دو افراد اس حملے میں زخمی بھی ہوئے۔

یہ حملہ کراچی میں اہلِ سنت والجماعت کے رہنما اورنگزیب فاروقی کی جان لینے کی ایک کوشش کے بعد سامنے آیا، جس پر اس گروپ نے شدید ردّعمل ظاہر کیا۔ اتوار کی رات شاہراہِ دستور پر اہلِ سنت والجماعت کے حمایتوں کا ایک ہجوم اکھٹا ہوگیا، جو اپنے ساتھی کی ہلاکت اور ان کے اراکین پر جاری مسلسل حملوں کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔

مظاہرین مرحوم کی میت اُٹھاکر سپریم کورٹ کی جانب بڑھنے کی کوشش کی۔ پولیس نے ابتداء میں نادرا کے ہیڈکوارٹر کے قریب ریڈزون کے داخلی راستے پر انہیں روکنے کی کوشش کرتے ہوئے ہلکا لاٹھی چارج کیا اور آنسوگیس کے شیل بھی فائر کیے، جس سے مظاہرین میں سے دو افراد محمد مبارک اور عبدالسمیع زخمی ہوگئے۔ تاہم پولیس نے انہیں آگے جانے کی اجازت دے دی، چنانچہ وہ مارچ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سامنے پہنچے اور اپنا دھرنا شروع کردیا۔

اہل سنت والجماعت کے مرکزی ترجمان حافظ عنیب فاروقی نے ڈان کو بتایا کہ اہل سنت والجماعت کے راولپنڈی کے عہدے دار مظہر صدیقی، محمد ابراہیم اور شیردل موٹرسائیکل رکشا پر سفر کررہے تھے۔ جیسے ہی وہ پیرودھائی کے قریب سوشل سیکورٹی ہسپتال کے نزدیک پہنچے، موٹرسائیکل پر سوار دو افراد نے انہیں روکا اوران پر فائرنگ شروع کردی، جس سے مظہر صدیقی موقع پر ہی ہلاک ہوگئے، جبکہ باقی دو زخمی ہوئے۔ جنہیں علاج کے لیے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) پہنچا دیا گیا۔

انہوں نے کہا ’’ہم نے سپریم کورٹ کے سامنے دھرنا دینے کا فیصلہ کیا، اس لیے کہ اہل سنت والجماعت کے زیادہ سے زیادہ 18 اراکین کو اسلام آباد اور راولپنڈی کے جڑواں شہروں میں قتل کیا جاچکا ہے لیکن اب تک کسی ایک ملزم کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔‘‘

ایک پولیس اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے تصادم سے بچنے کے لیے مظاہرین کو سپریم کورٹ کی جانب بڑھنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا ’’جن مشتبہ افراد نے اہل سنت والجماعت کے عہدے داروں کو گولیاں ماری تھیں، وہ ویسٹرج کی جانب گئے تھے اور وہ اس وقت بھی روالپنڈی میں موجود ہوسکتے ہیں۔‘‘

مذکورہ اہلکار نے دعویٰ کیا کہ اہل سنت والجماعت کے اراکین واپس نہیں جائیں گے، اور ان کو سپریم کورٹ کے سامنے اس وقت تک دھرنا دینے کی اجازت دے دی جائے گی، جب تک وہ چاہیں گے۔ تاہم پارٹی کی قیادت سے اس دھرنے کے خاتمے کے لیے کہا جائے گا۔

اہلِ سنت والجماعت کے سربراہ احمد لدھیانوی بھی شاہراہ دستور پر پارٹی کے احتجاج کی قیادت کرنے دارالحکومت پہنچ گئے۔ سپریم کورٹ کے سامنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اہلِ سنت والجماعت کے کارکنان کو ملک بھر میں قتل کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا ’’ایسا لگتا ہے کہ کچھ عناصر نہیں چاہتے کہ ملک میں امن قائم رہے۔ ہم یہاں بیٹھے ہیں، اور اس وقت تک یہاں سے نہیں جائیں گے جب تک کہ ہمارے مسائل حل نہیں کردیے جاتے۔‘‘

احمد لدھیانوی کا کہنا تھا کہ اہل سنت والجماعت کے کارکنان کو قتل کرنے والے افراد کو پھانسی پر لٹکانا چاہیے۔ ’’اگر جنرل مشرف پر حملہ کرنے والوں کو پھانسی دی جاسکتی ہے، جس نے ملک بدنام کیا ہے۔ تو پھر اہل سنت والجماعت کے کارکنان پر حملہ کرنے والوں کو پھانسی پر کیوں نہیں لٹکایا جاسکتا۔‘‘

حافظ عنیب کے مطابق سپریم کورٹ نے 18 نومبر 2014ء کو ایک سماعت کے دوران قرار دیا تھا کہ سپاہِ صحابہ پاکستان کالعدم تنظیم نہیں ہے۔

مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ اہل سنت والجماعت کے ایسے کارکنان جنہیں مختلف واقعات میں ہلاک کردیا گیا تھا، ان کی خاندانوں کو معاوضہ ادا کیا جائے، اور یہ مطالبہ بھی کیا کہ اہلِ سنت والجماعت کے عہدے داروں کو حکومت کی جانب سے سیکورٹی فراہم کی جائے۔

اتوار کی رات گئے وزیراعظم کے خصوصی مشیر عرفان صدیقی نے مظاہرین کے ساتھ مذاکرات شروع کیے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ اہل سنت و الجماعت کے کارکنان پر حملوں کے واقعات کی تحقیقات کی جائے گی، اور انہیں یقین دہانی کرائی کہ اس معاملے کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی جائے گی۔ اس یقین دہانی پر یہ دھرنا ختم کردیا گیا، اور حملے میں ہلاک ہونے والے مظہر صدیقی کی میت کو تدفین کے لیے مری روانہ کردیا گیا۔