ورلڈ کپ فاسٹ باؤلرز کیلئے چیلنج
یہ قومی ٹیم کے سابق کپتان وسیم اکرم کی تحریر ہے
عالمی کرکٹ کا تمام تر انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ آپ نے کیسی تیاری کی ہے، آپ خود کو فِٹ رکھتے ہیں، سخت محنت کے ساتھ ساتھ پریکٹس بھی کرتے رہتے ہیں۔ یہی بہترین طریقہ ہے جس کی بدولت آپ اونچائی تک جا سکتے ہیں۔ آئی سی سی ورلڈکپ 2015 آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی مشکل کنڈیشنز میں کھیلا جائے گا جس کا مطلب ہے کہ ذیادہ سے ذیادہ محنت درکار ہو گی۔
کھلاڑیوں کو آسٹریلیا کی پچز سے مانوس ہونے کے لیے ضرورت سے ذیادہ فِٹ رہنا پڑے گا اور اس کا مطلب ہے کہ ان کی کمر مضبوط ہونی چاہیے۔
میرا فاسٹ باؤلرز کو مشورہ ہے کہ وہ ورلڈ کپ سے 15 دن پہلے ہی آسٹریلیا جائیں اور بھرپور ٹریننگ کریں۔
’ایک دفعہ درکار فٹنس حاصل کرلی تو اس کا مطلب ہے کہ آدھا کام مکمل ہو گیا۔اس کے بعد باؤلرز کو چاہیے کہ وہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی پچز کی مناسبت سے گیند بازی کرتے ہوئے اپنی باؤلنگ میں ورائٹی لائیں۔
میں نے یہی غور کیا ہے کہ آسٹر یلیا کی پچز ہمیشہ سے ہی فاسٹ بالرز کے حق میں بہتر رہی ہیں۔ کیوں کہ یہاں کی پچز پر گیند ذیادہ باؤنس ہوتی ہے۔ پرتھ کی پچ کے علاوہ بقیہ تمام پچز ایک جیسی ہوتی ہیں، پرتھ کی پچ تیز ہوتی ہے، برسبین کی وکٹ بھی فاسٹ باؤلر کے لیے بہت اچھی ہے۔
یہ پچز فاسٹبالرز کو اچھا باؤنس دینے کے ساتھ ساتھ بلے بازوں کے لیے بھی سازگار ہیں اور کٹ، ہُک اور پُل شاٹس کھیلنے والے بلے باز باآسانی رنز اسکور کر سکتے ہیں، نئے گیند باؤنس دیکھ کر پرجوش ہو جائیں گے اور شاٹ گیندیں کرنے کی کوشش کریں گے لیکن میں اس کا مشورہ نہیں دوں گا۔
ایڈیلیڈ اور سڈنی کی پچز سپن بالرز کو مدد فراہم کرنے کے ساتھ بلے بازوں کے لیے بھی اچھی ثابت ہوتی ہیں، میلبرن کرکٹ گراؤنڈ کی پچ سِیم بالرز کے لیے مددگار ہوتی ہے لیکن یہاں موجود باؤنس بلے بازوں کو زیادہ مدد فراہم کرتا ہے۔
بالرز کو چاہیے کہ گیند کو گُڈ لینتھ پر گیند پھینکیں اور ساتھ ہی پیس بھی بدلتے رہیں جو کہ محدود اوورز کی کرکٹ میں باؤلرز کا بہترین ہتھیار ہے۔ یہ صرف ردھم اور اینگلز کا کمال ہے۔ جب بالر گیند پھینکنے لگے تو اپنی کلائی سے گیند کو گھمائے۔
ہم خوش قسمت تھے کہ جب ہم نے اپنے شاندار باؤلنگ اٹیک کی وجہ سے 1992 کا ورلڈ کپ جیتا تو ہمارے پاس اعجاز احمد اور عامر سہیل جیسے بہترین پارٹ ٹائم باؤلرز موجود تھے۔
عاقب جاوید بہترین بالر ثابت ہوئے اور ان کی کفایت شعار باؤلنگ دیکھتے ہوئے میں نے اٹیک کیا۔ مشتاق کو بھی وکٹوں سے باؤنس مل رہا تھا، میں نے 18 وکٹوں کے ساتھ ایونٹ کا اختتام کیا۔ اور اس کے پیچھے میری اچھی فٹنس تھی۔ میں کسی دن نہیں تھکا کیوں کہ عمران خان نے ہماری بہت حوصلہ افزائی کی۔
میلبرن کرکٹ گراؤنڈ کی پچ پر فائنل میچ میں میری وہ دو گیندیں ورلڈکپ کا قابلِ فخر جوہر ہے۔میں نے اُنہیں حکمت عملی کے تحت آؤٹ کیا۔
نیوزی لینڈ میں گیند آسٹریلیا کے مقابلے میں ذیادہ سوئنگ ہو تی ہے کیوں کہ ذیادہ تر گراؤنڈ سمندر سے قریب ہیں جس کی وجہ سے ذیادہ گیند سوئنگ ہوتی ہے جس سے بلے بازوں کو کھیلنے میں مشکل پیش آتی ہے۔
میں ڈیل اسٹین، مچل جانسن، ٹم ساؤدھی ، محمد عرفان اور جیمز اینڈرسن کو ورلڈ کپ کے بہترین باؤلرز چُنتا ہوں۔
عرفان اپنے لمبے قد کی وجہ سے اچھا بالر ثابت ہو سکتا ہے لیکن اس کو سیکھنا ہوگا کہ گیند کہاں پچ کرنا ہے۔ ڈیل اسٹین بھی اپنی جارحانہ باؤلنگ کی وجہ سے مضبوط بیٹنگ لائن اپ کو تباہ کر سکتا ہے۔ اسپنرز بھی وہاں اچھا کھیل سکتے ہیں۔ گرا ؤنڈز کافی بڑے ہیں تو غلط ہِٹ سے آوٹ ہونے کے مواقع ذیادہ مل سکتے ہیں۔
اگر فاسٹ باؤلر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں تو میں ایونٹ سے بہت لطف اندوز ہوں گا، کسی بھی قسم کے مشورے کے لیے میں ہر وقت دستیاب ہوں گا۔