نقطہ نظر

کون کس کو 'پھوڑے' گا؟

پاکستانی ٹیم کو چاہیے کہ وہ ہندوستانی میڈیا کے تنقیدی اشتہارات کا جواب اپنی بھرپور کارکردگی سے دے۔

ورلڈ کپ 2015ء کے آغاز میں اب صرف چند دن رہ گئے ہیں اور بالکل ابتدائی مرحلے ہی میں پاکستان اور ہندوستان کا عظیم مقابلہ ہوگا، لیکن اس سے پہلے دونوں ٹیموں کا حال ابتر ہے۔ ہندوستان تقریباً تین ماہ سے آسٹریلیا میں موجود ہے اور ابھی تک کوئی ایک میچ بھی نہیں جیت پایا جبکہ پاکستان پچھلے 12 میں سے صرف دو ون ڈے میں کامیابی حاصل کر سکا ہے۔ حالات کو دیکھا جائے تو پاکستان اور ہندوستان کا مقابلہ تو بہت سخت ہونا چاہیے لیکن ماضی ہندوستان کے پلڑے میں وزن ڈال رہا ہے۔

پاکستان اور ہندوستان ابتدائی چار ورلڈ کپ ٹورنامنٹس میں ایک بار بھی آمنے سامنے نہیں آئے لیکن 1992ء میں فارمیٹ ہی کچھ ایسا تھا کہ ان کا ٹکراؤ لازمی تھا۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ہونے والے اس ٹورنامنٹ میں شریک تمام 9 ٹیموں کو ایک دوسرے کے خلاف کھیلنا تھا۔ 4 مارچ 1992ء کو سڈنی میں پاکستان 217 رنز کا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا اور وہیں سے اس طویل سلسلے کا آغاز ہوا جو اب تک رکنے میں نہیں آ رہا۔ 1996ء میں انتہائی اہم کوارٹر فائنل میں، 1999ء میں سپر سکسز، 2003ء میں سنچورین میں ایک یادگار مقابلے اور 2011ء میں ورلڈ کپ سیمی فائنل میں بھی شکست پاکستان کا مقدر ٹھہری۔

سڈنی، بنگلور، مانچسٹر، سنچورین اور موہالی کے بعد اب اس سلسلے کا اگلا پڑاؤ ہے ایڈیلیڈ۔ جنوبی آسٹریلیا کے اس شہر میں 15 فروری کو ہونے والے مقابلے کے لیے کہا جا رہا ہے کہ یہ کرکٹ تاریخ کا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا میچ ہوگا۔ شکستوں میں گھرے ہونے کے باوجود دونوں ٹیموں کے حوصلے بلند ہیں اور شائقین اور ذرائع ابلاغ ان کے عزائم کو مزید بلند کر رہے ہیں۔

پڑھیے: راحت علی: ایک نامناسب فیصلہ

ہندوستان کے کھیلوں کے چینل اسٹار اسپورٹس نے اس سلسلے میں ایک اشتہار جاری کیا ہے جو اس وقت ٹیلی وژن چینل کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی خوب شہرت پا رہا ہے۔ اشتہار کا موضوع ہی پاکستان کی عالمی کپ میں ہندوستان کے ہاتھوں ہونے والی یہ پانچ شکستیں ہیں، دیکھیں اوراپنی حس مزاح کے مطابق اس اشتہار کا پورا لطف اٹھائیں:

`

فہد کیہر

فہد کیہر کرکٹ کے فین ہیں اور مشہور کرکٹ ویب سائٹ کرک نامہ کے بانی ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر fkehar@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔