ٹیڑھی اینٹ
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے پاکستان میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا آغاز بھی جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ہوا تھا۔ تب سردیوں کے دن تھے۔ باقی پاکستان کے بارے میں وثوق سے کہنا مشکل ہے لیکن ان دنوں کوئٹہ کے گھروں میں سوئی گیس کا استعمال شروع نہیں ہوا تھا اس لیے لوگ گھروں کو گرم رکھنے کے لیے زیادہ تر بجلی کے ہیٹر یا کوئلے کی انگیٹھی استعمال کرتے تھے۔ اس لیے جب روز کئی گھنٹوں کے لیے بجلی غائب رہنے لگی تو لوگ بلبلا اٹھے۔
تبھی ملک کے واحد ٹیلی ویژن چینل پر حکومت کی طرف سے بیان آیا کہ چونکہ سردیوں میں پہاڑوں پر بنے گلیشیر جم جاتے ہیں اس لیے دریاؤں میں پانی کی کمی واقع ہوجاتی ہے جس کا اثر بجلی کی پیداوار پر پڑتا ہے۔ لہٰذا اس کمی کو پورا کرنے کے لیے پورے ملک میں کچھ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے تاکہ کارخانوں کو بجلی کی مسلسل فراہمی جاری رہے اور ملکی معیشت کا پہیہ چلتا رہے۔ یہ وضاحت چونکہ ہر لحاظ سے "سائنٹیفک" تھی اس لیے پڑھی لکھی عوام نے یہ سوچ کر صبر شکر کر لیا کہ کچھ مہینوں ہی کی تو بات ہے، بس یہ سردیاں گزر جائیں اور دریاؤں میں پانی کی سطح بلند ہو تو پہلے کی طرح ہر طرف بجلی ہی بجلی ہوگی۔
لیکن عوام کی امیدوں پر تب پانی پھر گیا جب جون اور جولائی کے مہینوں میں بھی لوڈ شیڈنگ کا یہ سلسلہ نہ صرف جاری رہا بلکہ اس کا دورانیہ بھی بڑھ گیا۔ تب اس سے قبل کہ عوام کا احتجاج زیادہ بلند ہوتا، حکومت کا ایک اور بیان سامنے آیا جس میں عوام کے علم میں اضافے کی غرض سے بتایا گیا کہ چونکہ گرمیوں میں ایئر کنڈیشنر اور پنکھوں کا استعمال بڑھ جاتا ہے اس لیے بجلی کم پڑ جاتی ہے، لہٰذا اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مجبوراَ لوڈ شیڈنگ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
وہ دن اور آج کا دن۔ یہ سلسلہ ابھی تک صرف اس لیے جاری و ساری ہے کیونکہ نہ تو گلیشیئر کے رویے میں کوئی تبدیلی آئی ہے نہ ہی گرمیوں میں ایئر کنڈیشنراور پنکھوں کا استعمال کم ہوا ہے۔
ضیاء الحق ہی کے زمانے کا ایک واقعہ ہے کہ ایک دن اچانک پی ٹی وی پر حکومت کی جانب سے اشتہارات چلنے لگے جس میں آئندہ موٹر سائیکل اور سکوٹر کی سواری کرنے والوں کے لیے ہیلمٹ پہننا لازمی قرار دیا گیا جبکہ خلاف ورزی پر جرمانے کی دھمکی بھی دی گئی۔ تمام موٹر سائیکل اور سکوٹر چلانے والوں بلکہ پیچھے بیٹھنے والوں کو بھی اس بات کی مہلت دی گئی کہ وہ مقررہ مدت تک اپنے لیے ہیلمٹ کا بندوبست کرلیں جس کے بعد کسی سے رعایت نہیں کی جائے گی۔ پھر کیا تھا ملک بھر میں دوکانوں اور ریڑھیوں کے علاوہ فٹ پاتھوں پر بھی ہیلمٹ بکنے لگے۔ یہ ٹریفک کے محکمے کے لیے بھی ایک سنہری دورثابت ہوا۔ ٹریفک سپاہیوں کی تو لاٹری نکل آئی جو ہمیشہ اس تاک میں رہتے کہ کوئی ننگے سر موٹر سائیکل یا سکوٹر چلاتا نظر آئے اور کچھ چائے پانی کا بندوبست ہوسکے۔
یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک بازار سے ہیلمٹ کا سارا اسٹاک ختم نہیں ہوا۔ یہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ دراصل ضیاء صاحب کے کسی خاص دوست کو ایک بین الاقوامی نیلامی میں سستے ہیلمٹس کا بڑا ذخیرہ ہاتھ آیا تھا جس کو اچھے داموں بیچنے کے لیے انہوں نے موصوف سے مدد مانگی تھی۔ اب جناب چونکہ دوستوں کا بڑا خیال رکھتے تھے اس لیے ان کے زرخیز ذہن نے یہ آسان قانونی ترکیب نکالی تاکہ دوست کا بھلا ہوسکے۔
پاکستان میں چونکہ زرخیز دماغوں کی کوئی کمی نہیں، خصوصاً ہمارے حکمران اس نعمت سے مالا مال ہیں اس لیے وہ ایسی قانونی ترکیبیں روز نکالتے ہیں تاکہ اپنا اور اپنوں کا بھلا کرسکیں۔ 1992 میں ایک ایسا ہی خیال اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے دماغ میں آیا تھا جو پیلی ٹیکسی سکیم کا باعث بنا۔ اس سکیم کا بنیادی مقصد بھی کچھ اور نہیں بلکہ یہی تھا کہ ملک کے بے روزگار نوجوانوں کو باعزت روزگار کے مواقع میسر آسکے۔ اب چونکہ پاکستان میں اچھی اور ٹکاؤ گاڑیاں بنانے کا کوئی کارخانہ نہیں تھا لہٰذا انہوں نے بہ امر مجبوری کوریا سے ہزاروں گاڑیاں منگوائیں تاکہ "کچھ" بیروزگاروں کا بھلا ہوسکے۔
پھر اسی نوّے کی ہی دہائی میں حکومت نے گاڑیوں میں سی این جی کے استعمال کی حوصلہ افزائی شروع کی۔ عوام کو ایک بار پھر اشتہارات کے ذریعے یہی باور کروایا گیا کہ چونکہ پیٹرول عالمی منڈی سے خریدا جاتا ہے اس لیے اس پر کثیر ملکی زر مبادلہ خرچ ہوتا ہے اس لیے اگر عوام اپنی گاڑیوں میں سی این جی کٹ لگوائیں تو اس سے نہ صرف ان کی گاڑی کا خرچہ کئی گناہ کم ہو جائے گا بلکہ ماحول کی آلودگی میں بھی کافی کمی آئے گی جس سے انسانی زندگی پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سکیم کو اتنی پذیرائی ملی کہ ملک میں دھڑا دھڑ سی این جی کٹ بنانے کے کارخانے قائم ہونے لگے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ ملک کی تقریباَ 80 فیصد گاڑیاں سی این جی پر چلنے لگیں اور ملک بھر میں جابجا سی این جی اسٹیشن کھل گئے۔
لیکن جب ملک کے 25 لاکھ کے قریب گاڑی مالکان نے اپنی گاڑیوں میں سی این جی کٹ لگوالی تو حکومت نے ایکدم سی این جی کی راشن بندی کا حکم صادر کردیا۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ ملک میں گیس کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں اس لیے گاڑی مالکان گیس کا کم سے کم استعمال کریں تاکہ کارخانوں کو اس کی بلا تعطل فراہمی جاری رہ سکے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سی این جی اسٹیشن کئی کئی دن بند رہنے لگے اور ان پر گاڑیوں کی میلوں لمبی قطاریں لگنے لگیں جسے دیکھ کر اکثر گاڑی مالکان نے دوبارہ پٹرول کا استعمال شروع کردیا۔
لیکن ابھی شاید ان کا امتحان ختم نہیں ہوا کیونکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں تاریخ ساز کمی کے باوجود پچھلے دنوں ملک میں پٹرول کی جو قلت دیکھنے میں آئی اور لوگ پٹرول پمپوں پر جس طرح بوتلیں ہاتھ میں لیے اور مرد برقع پہنے لمبی قطاروں میں کھڑے نظر آئے اسے دیکھ کر مجھے بے اختیار ضیاءالحق کی یاد آئی جن کے سنہری اصولوں کو اب بھی حکمرانوں نے اپنا مشعل راہ بنا رکھا ہے۔
ابھی پچھلے سال کی بات ہے جب حکومت نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کے لیے "وزیراعظم انرجی سیور پروگرام" کے نام سے ایک اور تیر بہ ہدف نسخہ آزمانے کا اعلان کیا جسے مقبول عام بنانے اور اس کے ثمرات عوام تک پہنچانے کے لیے ایک بار پھر کثیر رقم خرچ کر کے اشتہارات کا سہارا لیا گیا۔ حکومت کے بقول اس اسکیم کا بنیادی ہدف بجلی کے بحران پر قابو پانا تھا جس کے لیے ملک بھر میں تین کروڑ انرجی سیورز کی مفت تقسیم کا اعلان کیا گیا تاکہ عوام کو پرانے بلب کی جگہ ان کے استعمال کی ترغیب ملے۔
اب اگر ایک انرجی سیور کی اوسط قیمت سو روپے تصور کی جائے تو اس بات کا حساب لگانا زیادہ مشکل نہیں کہ اس پروگرام کے تحت اب تک تین ارب روپے کے انرجی سیور تقسیم کیے جا چکے ہیں لیکن اس کے باوجود لوڈ شیڈینگ کے دورانیے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اب تو یہ حکومت ہی بتا سکتی ہے کہ تین ارب روپوں کے انرجی سیور کی مفت تقسیم اوراشتہار بازی سے کن لوگوں کو فائدہ پہنچا؟
یہ تو محض چند ہی مثالیں ہیں ورنہ اگر محض گذشتہ چند سالوں کا ہی جائزہ لیا جائے تو لگ پتہ جائے گا کہ سستی روٹی سکیم سے لے کر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام تک عوام کی بھلائی کے نام پر ہمارے "غریب پرور" حکمرانوں نے کیا کیا گل نہیں کھلائے؟ اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جینئس حکمرانوں کی ان سکیموں کا عوام کو فائدہ پہنچا ہو یا نہ پہنچا ہو لیکن حکمرانوں کے دائیں بائیں پھرنے والے کچھ غریبوں کو ضرور فائدہ ہوا ہوگا جو بیرون ملک سستی جائدادیں خریدنے کے شوقین ہیں۔ ورنہ غریبوں کو تو پہلے کی طرح نہ کھانا نصیب ہے نہ ہی صاف پانی، نہ بجلی نہ گیس جہاں تک پیٹرول کی بات ہے تو اس کی زیادہ اہمیت اس لیے نہیں کہ یہ تو امیروں کے چونچلے ہیں۔ غریبوں کو تو بس ماہانہ ایک ہزار روپے کی خیرات چاہیے تاکہ وہ سستی روٹی کھا کر شان سے جی سکیں۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ پاکستان بناتے وقت کس معمار نے بنیاد ہی ٹیڑھی رکھ دی کہ اب دیواریں سیدھی ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں؟ شاید ایسی ہی صورت حال کے بارے میں مولانا جلال الدین بلخی نے کہا تھا کہ
خشت اول چون نہد معمار کج
تا ثریا میرود دیوار کج
(معماراگربنیاد کی پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھ دے تواس پر کھڑی ہونے والی دیوارآخر تک ٹیڑھی رہتی ہے)۔