نقطہ نظر

ہمارے تعلیمی نظام کے ثمرات

صرف تعلیم عام کرنے سے کچھ نہیں ہو گا بلکہ نصاب و نظام کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔

پاکستان میں رہنے والے تمام لوگوں کو تو نہیں پر اکثریت کو میری باتیں زہر لگیں گی، کیونکہ زہر کا جو ٹیکہ ہمیں ہمارے اسکولوں میں نصاب کے نام پر لگایا جاتا ہے اس کے اثر سے باہر نکلنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ ہم سب تعلیمی جہالت کا شکار ہیں۔ اسکولوں میں ہم جو پڑھتے ہیں، وہ کالج میں جا کر کچھ اور ہو جاتا ہے۔ یہ کنفیوژ طالبعلم جب کالج سے نکل کر یونیورسٹی پہنچتا ہے تو پھر کچھ کچھ سمجھ آنے لگتی ہے کہ تعلیم کیا ہوتی ہے اور اب تک ہم کیا پڑھ رہے تھے۔ کبھی کبھی تو اس مقام پر پہنچ کر بھی سمجھ نہیں آتی۔

آخر سمجھ آئے گی بھی کیوں جب اسکول میں استاد شاگردوں کو یہ بتائیں کہ خلا بازوں نے چاند پر اذان کی آواز سنی اور کہیں یہ بتایا جائے کہ چاند پر اترنا صرف امریکی جھوٹ ہے۔ استاد معاشرہ سازی کا کام کرتا ہے۔ جب وہ ہی اس قسم کی تعلیم دینے لگے تو کیا ہوگا۔ اس کا وہی جھوٹ تین چار سال بعد اس کے شاگرد کے سامنے کھل جاتا ہے۔ اس وقت استاد کی عزت اور سچائی پر یقین رکھنے والا طالبعلم یہ نہیں سمجھ پاتا کہ آیا اس کے اساتذہ نے اسے غلط پڑھایا تھا یا نئی معلومات غلط ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سادہ سے حقائق تسلیم کرنے میں بھی بیچارے کو بسا اوقات زندگی بھر کا عرصہ لگ جاتا ہے۔

پڑھیے: حقائق جو نصاب میں نہیں

ہمارا ہر استاد شاگرد کو گونگا، بہرا، اور اندھا بنانے کا کام کرتا ہے۔ کسی اور کی مت سنو، مجھ سے سوال مت کرو، اور میں جو کہتا ہوں اندھوں کی طرح اس پر چلو۔ حالانکہ تعلیم کا مقصد ہی یہ ہے کہ جو چیز سمجھ نہ آئے وہ مثالوں اور دلائل کے ذریعے سمجھائی جائے، تاکہ بچے کو پورا یقین ہو کہ جو چیز اس نے پڑھی ہے، وہی درست ہے۔ لیکن جب نام نہاد پرائیویٹ اسکولز میں میٹرک انٹر پاس لڑکے لڑکیاں خود کو استاد کہلوانے لگیں، وہاں کیا دلیل اور کیا مثال۔ بس جلدی جلدی کورس مکمل کروانے پر زور ہوتا ہے، پھر چاہے کسی کی سمجھ میں کچھ آئے، یا نہیں۔

اس کے بعد دہشتگردی کا مسئلہ۔ اب تک یہ قوم اس بات پر منقسم ہے کہ آخر دہشتگرد ہیں کون اور چاہتے کیا ہیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ آخر ہم اپنے دوستوں اور دشمنوں کو کیوں نہیں پہچانتے۔ لیکن پہچانیں گے بھی کیوں۔ یہ اسی ٹیکے کا کمال ہے جو ہمیں دن کو رات اور سفید کو سیاہ کہنا سکھاتا ہے۔ ہماری قوم 20 کروڑ لوگوں کا ایک بے ہنگم ہجوم ہے۔ کوئی ڈسپلن نہیں، کوئی نظم و ضبط نہیں۔ اتحاد تو ہم میں اتنا ہے کہ اگر اپنی پر آجائیں تو ہر گھر میں تین چار ملک بنا ڈالیں۔

یہ طالبعلم اگر گلے سڑے تعلیمی نظام سے پاس ہو کر اور دہشتگردی کی نذر ہونے سے بچ کر اگر کسی دوسرے ملک پہنچ جائے، تو اپنے دیس میں حاصل کی گئی تعلیم اب اس نئے دیس میں بھی اپنا اثر دکھانا شروع کر دیتی ہے۔ کسی بھی ملک کی پہچان اس کے لوگوں سے ہوتی ہے۔ زہر لگتا ہے جب لوگ بیرونِ ملک جاتے ہیں تو اس ملک کا دودھ مکھن کھا کر اسی ملک کی سو برائیاں کرتے ہیں۔ 'یہاں برقعے پر پابندی ہے، یہاں مینار پر پابندی ہے'۔ اگر آپ کو اس ملک سے اتنی تکالیف ہیں، تو آپ اس ملک میں آتے ہی کیوں ہیں؟ اور اگر تعلیم یا روزگار کے لیے آ ہی گئے ہیں، تو اس ملک کے طور طریقوں کو بدلنے کی کوشش کرنے کے بجائے خود میں اور ان میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کریں۔

کیا آپ اس بات کو برداشت کریں گے کہ کوئی یورپی یا امریکی پاکستان آئے، یہاں رہے اور اس کے بعد پاکستان کو برا بھلا کہے، اور پھر کہے کہ میں یہاں پر اپنے ملک کے طریقے رائج کرنا چاہتا ہوں۔ کیا اس بات پر اس غیر ملکی کی ذہنی و جسمانی مرمت نہیں کر دی جائے گی؟ اگر اپنے ملک کے لیے یہ برداشت نہیں ہے، تو کسی اور ملک کے لیے کیوں؟

مزید پڑھیے: پاکستانی تدریسی کتب میں شامل بڑے جھوٹ

ہم لوگ اتنی دوغلی قوم ہیں کہ مغرب کو صبح شام ٹوکتے ہیں، مگر اپنے پاس اقلیتوں کو آزادی دینے کو تیار نہیں۔ ہمارے ملک میں ان کی عبادت گاہیں محفوظ نہیں اور پھر ہم توقع رکھتے ہیں کہ دنیا ہماری مساجد کی حفاظت کرے۔ وہ تو پھر بھی مہذب مغربی معاشرہ ہے جہاں غیر مسلم بھی مساجد پر حملے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، جبکہ یہاں کے لوگ اس بارے میں کنفیوژن کا ہی شکار رہتے ہیں کہ آیا احتجاج کیا جائے یا چپ رہا جائے۔

ہمیں لوگوں کے انفرادی معاملات میں گھسنے کی بہت ہی زیادہ عادت ہے۔ 'فلاں نماز نہیں پڑھتا، فلاں زکوٰۃ نہیں دیتا'، لیکن جہاں گھسنا چاہیے وہاں نہیں گھستے، مثلاً فلاں کے بچے اسکول کیوں نہیں جاتے، فلاں کے گھر میں روٹی ہے یا نہیں وغیرہ۔ کبھی میں نے اور آپ نے یہ سوچا ہے کہ جس جائے نماز پر ہم سجدہ کرتے ہیں، یہ کس نے بنائی ہے؟ جس تسبیح پر ذکر کرتے ہیں یہ کس نے بنائی ہے؟ کبھی ہم اس قابل ہو سکیں گے جنہوں نے یہ بنائی ہیں ہم ان کی عبادت کی چیزیں بنا سکیں؟ جب تک ہم میں یہ سوچ نہیں آئے گی، تب تک بھلے کتنا ہی پڑھ لیں، تبدیلی نہیں آ سکتی۔

اور پڑھتے تو ہم ہیں نہیں۔ اسکول کی کتابوں میں رٹا۔ دینی کتابوں میں رٹا۔ نہ تو استاد کو پتہ ہوتا ہے کہ کیا پڑھا رہے ہیں اور نہ شاگرد کو سمجھ آتی ہے کہ کیا پڑھ رہے ہیں۔ اور اس ملک میں تعلیم کے نام پر یہ ڈھونگ سالہا سال سے رچایا جا رہا ہے۔ ہمارا پورا تعلیمی ڈھانچہ ہی کبڑے پن کا شکار ہے۔ ہم سیکھتے کچھ ہیں، کرتے کچھ ہیں اور سکھاتے کچھ اور ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب ساری دنیا ٹیکنولاجی کے پیچھے پڑی ہے، ہم آئیڈیولاجی کے پیچھے پڑے ہیں۔ خدارا اپنے بچوں کو تعلیم کے نام پر نظریات مت پڑھائیں۔ انہیں صاف ستھری تعلیم دے کر حقیقت پسند بنائیں۔ تنگ نظری سے آلودہ کتابیں دینے کے بجائے حقائق پر مبنی کتابیں دیں اور اس کے بعد انہیں اپنے نظریات خود قائم کرنے دیں۔

جانیے: مسلم زائن -- پاکستان بحیثیت ایک سیاسی نظریہ

ورنہ اگر ایسے ہی نعرے لگا رہے ہیں کہ تعلیم عام کرو، تو اس موجودہ تعلیم اور نصاب سے کچھ نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے ہمیں اپنے نصاب کو جدید تقاضوں سے اہم آہنگ کرنا پڑے گا۔ ورنہ یہ ایسا ہے کہ آپ ببول کے پودے سے سیب کی توقع لگائے رکھیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ یہ توقع عبث ہے، تو اس پر غدار ہونے کا لیبل لگا دیں۔

افتخار کارین

لکھاری عرب امارات کے شارجہ امریکن انٹرنیشنل اسکول میں سلیبس کوآرڈینیٹر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔