کراچی: گلشن اقبال میں اسکولوں کے قریب دھماکا
کراچی: پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے علاقے گلشن اقبال کی ایک سڑک پر نامعلوم افراد کی جانب سے دستی بم پھینکا گیا، جہاں متعدد نجی اسکول موجود ہیں۔
نمائندہ ڈان نیوز کے مطابق کراچی کے علاقے گلشن اقبال کے بلاک نمبر سات کی ایک سڑک پر نامعلوم افراد نے دستی بم پھینکا اور با آسانی فرار ہو گئے۔
دستی بم حملوں میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی، کیونکہ حملے کے وقت بچے اسکولوں میں موجود نہیں تھے۔
حملہ آوروں کی جانب سے ایک دھمکی آمیز خط بھی پھینکا گیا، جو اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں تحریر کیا گیا تھا۔
|
جائے وقوعہ کے قریب واقع ایک نجی اسکول کے ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ علاقے کے تمام اسکولوں میں آج تعلیمی سرگرمیاں معطل کردی گئی ہیں جبکہ آئندہ کا لائحہ عمل اس علاقے میں قائم نجی اسکولوں کی انتظامیہ سیکیورٹی ایجنسیز سے باہمی مشاورت کے بعد طے کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کا مقصد صرف طباء اور والدین کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنا تھا۔
واضح رہے کہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے اور اس میں 130 سے زائد بچوں سمیت 150 افراد کی ہلاکت کے بعد پھانسی پر عائد کی گئی غیر اعلانیہ پابندی ختم کر دی گئی تھی، جس کے بعد سے اب تک متعدد خطرناک مجرموں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔
یاد رہے کہ آج ہی کراچی میں 2 ملزمان کو پھانسی دی گئی ہے جن کا تعلق کالعدم تنظیم سے ہے۔
دستی بم حملے کے حوالے سے پولیس ڈسٹرکٹ ایسٹ کے ڈی آئی جی منیر احمد شیخ کا کہنا تھا کہ دستی بم حملہ بظاہر اسکولوں پر نہیں کیا گیا تھا بلکہ سامنے کی سڑک پر دھماکا ہوا۔
|
ان کا مزید کہنا تھا کہ دھماکے کےوقت اسکول بند تھے، لہذا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
ڈی آئی جی ایسٹ نے مزید بتایا کہ علاقے کی سی سی ٹی وی فوٹیج قبضے میں لے لی گئی ہے جس کے معائنے کے بعد صورتحال مزید واضح ہوگی۔
دوسری جانب دھماکے کے بعد یونیورسٹی روڈ کا ایک ٹریک بند ہو گیا جس سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی۔
سندھ کے وزیر تعلیم نثار کھوڑو نے دستی بم حملے کا نوٹس لے کر ایڈیشنل آئی جی کراچی سے واقعے کے رپورٹ طلب کرلی ہے۔
علاوہ ازیں ڈی جی رینجرز بلال اکبر نے بھی جائے وقوع پر پہنچ صورتحال کا جائزہ لیا۔
ذرائع کے مطابق گلشن اقبال میں دستی بم پھینک کر فرار ہونے والے ملزمان کی تعداد 2 تھی جو کہ موٹر سائیکل پر سوار تھے۔
ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق سیکیورٹی خدشات کے باوجود کراچی میں سرکاری و نجی اسکولوں کی سیکیورٹی کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق نجی اسکولوں کے اطراف غیر قانونی پارکنگ خطرے کی علامت ہے جبکہ کئی سرکاری اسکول انتہائی غیر محفوظ ہیں۔
کئی سرکاری اسکولوں کی دیواریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کے ساتھ انتہائی نیچی اور دروازے خستہ حال ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق شہر کے 6 سے 7 ہزار رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ پرائیویٹ اسکولوں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں جبکہ کئی مشہورو معروف اسکولوں کے ساتھ موجود غیر قانونی پارکنگ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔
محکمہ داخلہ سندھ نے اسکولوں کی انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ سیکیورٹی انتظامات بہتر بنانے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ساتھ دیں اور اس کام میں مدد کے لیے انہیں اسلحہ لائسنس بھی جاری کیے جائیں گے۔
دوسری جانب تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی کی ناکافی صورتحال کا اعتراف سیکریٹری داخلہ سندھ بھی کرچکے ہیں۔