اسکول کا منظر: کتابیں، اسلحہ، اور گولیاں
جب آپ کلاس روم کے بارے میں سوچتے ہیں، تو سب سے پہلے آپ کے دماغ میں کیا آتا ہے؟
جو کوئی خوش نصیب بھی کلاس جا چکا ہے، وہ اس تجربے کو اپنے الفاظ میں بیان کرے گا۔ لیکن خوبصورت چارٹس، سائنسی آلات، سخت اور غیر آرامدہ کرسیوں، بھاری آنکھوں اور بیگز والے بچوں کے علاوہ یہ ٹیچر ہی ہے جو کسی بھی کلاس روم کو مکمل بناتا ہے۔
تعلیم اور جذبے سے لیس اساتذہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ طلبا کے اندر نت نئی چیزوں کی کھوج لگانے کی چاہت اور قابلیت پیدا کریں۔ دوسری طرف یہ بھی ان کی ذمہ داری ہے کہ ایک مستحکم اور ڈسپلن کا پابند تعلیمی ماحول پیدا کریں جس میں اچھے کاموں پر تعریف اور غلطی پر سزا کا توازن برقرار رہے۔
سالوں سے اب تک بھی اساتذہ کے ہاتھ میں موجود سب سے خطرناک ہتھیار امتحان کا رزلٹ تھا۔ لیکن لگتا ہے کہ اب یہ سب کچھ تبدیل ہونے والا ہے۔
پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے کے بعد جو ناقابلِ فہم اور عجیب فیصلے سامنے آئے، اس میں ایک یہ بھی تھا کہ خیبر پختونخواہ میں اساتذہ کو اسلحہ چلانے کی تربیت اور اسکول کے اندر اسلحہ رکھنے کی اجازت دی جائے۔
حیرانگی کی بات ہے کہ وہ لوگ جو ایک نصاب کے دوسرے کے مقابلے میں خطرناک اثرات پر بحث کرتے رہتے ہیں، انہوں نے کلاس رومز میں اسلحہ متعارف کروانے پر کسی بھی قسم کی پریشانی کا اظہار نہیں کیا۔
خیبر پختونخواہ انتظامیہ نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ صوبے میں موجود 35,000 اسکولوں اور کالجوں کی حفاظت کے لیے اس کے پاس سکیورٹی اہلکاروں کی کمی ہے، اور اس لیے اس نے پریشان کن حالات میں پریشان کن فیصلہ کر ڈالا۔
گیلری: اساتذہ کو اسلحہ چلانے کی تربیت دینے کا آغاز
لیکن ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ اساتذہ دوسروں کی جانیں بچا لیں گے، جبکہ سکیورٹی گارڈ، خاردار تاریں، اور چیک پوسٹس ایسا کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں؟
اس فیصلے سے بحیثیت قوم ہمارا سب سے بڑا مسئلہ واضح ہو جاتا ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہماری جانوں کا تحفظ اور زندہ رہنا ہے۔
اور ہمارے عجیب و غریب اقدامات کی صرف ایک ہی توجیہ پیش کی جا سکتی ہے: ہم نقصانات کم سے کم رکھنے کی کوشش میں ہیں، جب تک ایسا کرنا ممکن رہے۔
وہ دن گئے جب ہم کشتی کا راستہ درست کرنے کی کوشش کر سکتے تھے۔ اب ہم صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ کشتی میں پیدا ہونے والے بے شمار سوراخوں کو بند کرنے کی کوشش کرتے رہیں، جب تک ایسا کرنا ممکن ہو۔
کلاسوں میں اسلحے کی اجازت دینے کے طویل مدت میں نقصاندہ اثرات ہوں گے۔
پشاور حملے کے بعد اسکول سیکھنے سکھانے کی جگہوں کے بجائے ملٹری بیرکس زیادہ لگنے لگے ہیں، اور ایسی صورتحال میں اسلحے کی زیادہ سے زیادہ موجودگی ننھے بچوں کے دماغوں پر انمٹ اثرات چھوڑ جائے گی۔
80 کی دہائی میں پاکستان کے افغان ایڈوینچر کے بعد معاشرے میں اسلحہ عام ہونے کے جو اثرات پیدا ہوئے ہیں، وہ ہمیں ایسے اقدام سے خبردار کرنے کے لیے کافی ہونے چاہیے تھے، لیکن لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔
زندگی کے بڑے مسئلوں کو سلجھانے کے لیے بندوقوں کے استعمال نے پہلے ہی کئی ترقی یافتہ معاشروں کو تباہی کے دہانے تک پہنچایا، اور ہم یہی غلطی دوبارہ نہیں کر سکتے۔ بھلے ہی اسلحہ کتنا ہی احساسِ تحفظ پیدا کرے، لیکن یہ پھر بھی زندگی کے لیے خطرہ ہی ہیں، اور فیصلہ کرتے وقت یہ سوچنا چاہیے تھا۔
پڑھیے: اسکولزکو سیکیورٹی انتظامات 'خود' کرنے کی ہدایت
شاید ہمیں اس معاملے میں امریکی تجربے سے سیکھنا چاہیے، جہاں اسلحے کے پھیلاؤ نے کئی بار تعلیمی اداروں اور دیگر جگہوں پر بربادی پھیلائی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ باقی کے ملک کی طرح خیبر پختونخواہ میں بھی پولیس کے محکمے میں افرادی قوت کی کمی ہے، اور ان کو دی جانے والی تربیت بھی کوئی خاص فائدہ مند نہیں۔ سکیورٹی کے ذمہ داران جب دہشتگردوں کو پشاور کے خوفناک حملے سے نہیں روک سکے، تو شاید اساتذہ ہی آخری دفاع کے طور پر کام آئیں؟
لیکن ان سب باتوں سے قطع نظر، ایک طویل مدتی اسٹریٹجی کے بجائے جلد بازی میں کیا جانے والا یہ فیصلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہمارے حکام مسئلے کی گہرائی سے شاید واقف نہیں ہیں۔
یہ حیرانگی کی بات ہے کہ اسکولوں جیسی مقدس جگہیں، جہاں زندگی کی تلخیاں کچھ دیر کے لیے بھلائی جا سکتی ہیں، وہاں مزید تلخ حقیقتوں نے جگہ سنبھال لی ہے۔ ایسی جگہوں پر جہاں اساتذہ بچوں کو ذمہ دار شہری بنا سکتے تھے، وہاں اب صرف غم اور خوف کی ڈائگرام دستیاب رہ گئی ہیں۔
پہلے بیگز میں کتابیں بھری ہوا کرتی تھیں، اور اب ان میں گولیوں کا اسٹاک بھی ہوا کرے گا۔ یہی موجودہ پاکستان کی حقیقت ہے۔
ایک مثالی دنیا میں اساتذہ اپنے طلبا کو بندوقوں کے بجائے تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے، لیکن ایک طویل عرصے سے ہم اس دنیا میں نہیں رہتے۔
سید راشد منیر لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز سے فارغ التحصیل ہیں اور Erasmus Mundus اسکالر ہیں۔ وہ سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات میں ڈگریاں رکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔