انسانی دماغ کی بھول بھلیاں جو کسی کو بھی کردیں گم
انسانی دماغ کی بھول بھلیاں جو کسی کو بھی کردیں گم
سعدیہ امین اور فیصل ظفر
کیا کبھی آپ نے کبھی خود کو سوچنے کی کوشش کی ہے کہ آپ کا دماغ کس طرح کام کرتا ہے کیا کبھی نہیں سوچا؟ درحقیقت اپنے دماغ کو سوچ سے خالی کرنا ممکن ہی نہیں مگر اپنے دماغ کے بارے میں جاننا ضرور ممکن ہے۔
موجودہ دور کی سائنس میں ایسی ایسی باتیں سامنے آرہی ہیں جو کسی کے لیے حیرت انگیز سے زیادہ کسی طلسم ہوشربا سے کم نہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ جادوئی دنیا کہیں دور نہیں بلکہ ہمارے ہی اندر پوشیدہ ہوتی ہے۔
جیسے ماضی زندگی کا وہ حصہ ہوتا ہے جو جتنا بھی تکلیف دہ گزرا ہو درحقیقت وہ مستقبل میں خوشگوار یاد بن کر ہی ذہن میں ابھرتا ہے کیونکہ ہمارا دماغ تکلیف دہ یادوں کو یاداشت سے نکال کر انہیں خوشگوار کردیتا ہے چاہے اس کے لیے جھوٹی باتیں ہی کیوں نہ بھردیں۔
تو ماضی، ذہن، یادداشت اور ایسے ہی کچھ انوکھے دماغی ٹوئیسٹ کے بارے میں جانیے جو ہماری زندگیوں کا حصہ تو ہوتے ہیں مگر ہم ان کا خیال نہیں کرتے۔
کس عمر کی یادیں رہتی ہیں یاد؟
کیا آپ کو اپنی ایک سال کی عمر کی باتیں یاد ہیں؟ نہیں ناں مگر سائنس کا تو ماننا ہے کہ ہرشخص یہ یادیں دہرا سکتا ہے، ہوسکتا ہے کہ آپ کو حیرت ہو مگر یہ دعویٰ امریکہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے آیا۔
نیویارک کی کارنیل یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق ماضی کا یہ نظریہ غلط ہے کہ کسی بھی انسان کو ساڑھے 3 سال کی عمر سے پہلے کی باتیں یاد نہیں رہتیں، درحقیقت ہم تو 9 ماہ کی عمر تک کی باتیں یاد کرسکتے ہیں۔ تاہم تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اپنی اولین چند ماہ کی یادیں بھی لڑکپن تک ہی ذہن میں رہتی ہیں جو وقت یا عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ذہن سے اتر جاتی ہیں۔
دلچپسپ ترین امر یہ سامنے آیا ہے کہ اس معاملے میں بھی لڑکیاں لڑکوں سے زیادہ بہتر ہیں جو اپنے بھائیوں کے مقابلے میں زیادہ چیزیں درست طور پر یاد رکھنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔
محققین کے مطابق اکثر بالغ افراد بھی اپنی اتنی کم عمری کی باتیں یاد کرلیتے ہیں جن کو سن کر حیرت ہوتی ہے تاہم یہ سب ہمارے دماغ کا کمال ہے جس پر اگر زور ڈالا جائے تو کوئی بھی انسان اپنی 9 ماہ کی عمر تک کی باتیں یاد کرسکتا ہے۔
ماضی کو دوہرانا ہوتا ہے فائدہ مند
سائنس کا ماننا ہے کہ اچھی چیزوں کی یاد درحقیقت آپ کیلئے بہت فائدہ مند ہے۔ جریدے جرنل میموری میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق اگر ماضی کی اچھی چیزوں کو یاد رکھا جائے تو یہ انسانی شخصیت کیلئے بہت فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔
تحقیق کے بقول لوگ ماضی کے برے تجربات کی بجائے مثبت واقعات پر زیادہ توجہ دیں تو یہ آپ کی صحت کیلئے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ مثبت یادیں برے واقعات کے برعکس زیادہ واضح طور پر انسانی یاداشت میں محفوظ ہوتی ہیں۔
تحقیق میں تو یہ بتایا گیا ہے کہ اگر ماضی کے خراب واقعات کو بھی اچھی نظر سے یاد کیا جائے تو وہ بھی فائدہ مند ہی ثابت ہوتے ہیں۔
خواتین نہیں مرد ہوتے ہیں زیادہ بڑے بھلکڑ
آپ مانیں یا نہ مانیں مگر مرد حضرات خواتین کے مقابلے میں زیادہ بھلکڑ ہوتے ہیں اور وہ اکثر عام تو کیا خاص باتیں بھی بھولنے کے عادی ہوتے ہیں۔ یہ انکشاف ناروے میں ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے آیا۔ ناوریجن یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی تحقیق کے بقول عمر چاہے 30 ہو یا 60 سال مرد ہمیشہ ہی خواتین کے مقابلے میں زیادہ بھلکڑ ثابت ہوتے ہیں، اس تحقیق کے نتائج نے محققین کو بھی حیران کرکے رکھ دیا۔
محقق پروفیسر جوسٹین ہولمین کا کہنا تھا کہ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ خواتین کے مقابلے میں مرد زیادہ باتیں بھولتے ہیں اور آج تک یہ بات منظرعام پر بھی نہیں لائی گئی۔ تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ مردوں کو اکثر نام اور تاریخیں یاد رکھنے میں بھی مشکل ہوتی ہے اس کے مقابلے میں خواتین اس معاملے میں کافی تیز ہیں۔
مخصوص خوشبوئیں جو بنائیں یاداشت بہتر
کیا کبھی آپ کو ایسا تجربہ ہوا کہ کوئی خاص مہک سونگھ کر اچانک کوئی مخصوص شخص یا منظر ذہن پر ابھر آیا ہو؟ اگر ہاں تو یہ سب ہماری دماغی لہروں کا کمال ہے۔ یہ دعویٰ ناروے میں ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے آیا تھا۔
تحقیق کے مطابق کچھ خاص خوشبوئیں ہمارے ذہن میں ایسے رچ بس جاتی ہے کہ وہ لوگوں کی پرانی یادوں کو اجاگر کردیتی ہیں۔ کاول انسٹیٹوٹ فار سسٹمز نیوروسائنسز کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کچھ خوشبوﺅں سے ایسی دماغی لہریں پیدا ہوتی ہیں جن سے ذہن میں چھپی یادیں ابھر آتی ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ یہ دماغی سگنل ہمارے ناک سے دماغ میں یاداشت کے حصے تک منتقل ہوتے ہیں اور وہاں سے اس جگہ، شخص یا کسی واقعے کی یاد کو اجاگر کردیتے ہیں۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دماغ اس خاص خوشبو کو یاداشت سے کنیکٹ کرتا ہے اور ایسا اندرونی نقشہ ذہن میں ابھرتا ہے جو اس خوشبو سے وابستہ یاد کو اجاگر کرتا ہے۔
تصاویر لینے کی عادت کردیتی ہے یادداشت خراب
اپنی زندگی کے ہر لمحے کی تصاویر لینے کی عادت لوگوں کے اندر اہم لمحات کو یاد کرنے کی صلاحیت کو ختم کرکے رکھ دیتی ہے۔ یہ دعویٰ ایک امریکی تحقیق میں سامنے آیا۔
فائرفیلڈ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق ہر وقت کیمرے کی آنکھ سے اہم لمحات کو دیکھنے کی عادت یاداشت میں اس منظر کی جزئیات کو سکیڑ کر رکھ دیتی ہے۔ محقق لنڈا ہینکل کے مطابق تصاویر لینے کی عادت یاداشت پر اثر انداز ہوتی ہے اور لوگ اپنی زندگی کے اہم لمحات کی بہت کم باتیں ہی یاد رکھ پاتے ہیں۔ تحقیق کے بقول تصاویر لیتے ہوئے لوگوں کی توجہ صرف ایک خاص چیز یا منظر پر مرکوز ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کی یاداشت زوم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتی ہے۔
سرچ انجنز کردیں غائب دماغ
انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ہمیں ہر سوال تک فوری رسائی کی سہولت دیدی ہے مگر اس چیز نے نوجوانوں کو غائب دماغ بنانا شروع کردیا ہے۔ امریکہ کی ہاورڈ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق اب تو صورتحال یہ ہے کہ لوگ انٹرنیٹ سرچ انجنز کو ایک علیحدہ ٹول سمجھنے کی بجائے اپنی ذہانت کا ہی حصہ سمجھنے لگے ہیں اور اسی وجہ سے اکثر منہ کی کھاتے ہیں۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ گوگل یا دیگر سرچ انجنز پر انحصار کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم ان حقائق کو بھی یاد نہیں رکھ پاتے جو ہم آن لائن جان چکے ہوتے ہیں۔
اب یاداشت سے نکلے اور اپنے دماغ کے بارے میں کچھ حیرت انگیز باتیں جانیے جو کسی کے بھی ہوش اڑا دینے کے لیے کافی ہے۔
دکھی گانے کرتے ہیں مزاج خوشگوار
ایک سائنسی تحقیق کے مطابق المیہ یا درد بھرے گیت سننے سے مزاج پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ٹوکیو یونیورسٹی کی تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس طرح کے گانوں سے لوگوں کو وہ رومانوی فلمیں یا اپنی زندگی کے خاص رومانس بھرے مواقع یاد آتے ہیں اور یہ چیز لوگوں کو خوش مزاج بنا دیتی ہے۔ تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ لوگ دکھی گانے سننا زیادہ پسند کرتے ہیں اور ایسے ہی گیت چلبلے یا شوخ گانوں کے مقابلے میں زیادہ مقبولیت حاصل کرتے ہیں۔
دماغ اندازوں سے بھی زیادہ تیز
بظاہر تو ایک سیکنڈ میں بجلی کی طرح نظروں سے گزرنے والی درجن بھر تصاویر کو شناخت کرنا ناممکن لگتا ہے مگر حقیقت تو یہ ہے کہ انسانی دماغ یہ کام ریکارڈ بریکنگ رفتار سے کرسکتا ہے۔ میساچوسٹس انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی کی تحقیق میں یہ انکشاف ہوا کہ انسانی دماغ آنکھوں کو نظر آنے والی تصاویر کی شناخت محض 13 ملی سیکنڈ میں کرلیتا ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ انسانی دماغ کی اس قدر تیز رفتاری ریکارڈ کی گئی ہے اس سے پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ یہ رفتار اس سے 8 گنا سست ہے۔
محقق میری پوٹر کے مطابق ہمارا دماغ پورا دن یہی کام کرتا ہے اور سمجھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے کہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ آنکھوں کا کام صرف دماغ تک معلومات ہی پہنچانا نہیں ہوتا بلکہ وہ دماغ کو تیز رفتاری سے سوچنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہیں۔
مردوں کے دماغ میں ہر وقت سونا، کھانا اور رومانوی تعلق
مرد حضرات کے دماغوں میں ہر وقت سونے، کھانے اور رومانوی تعلقات کے خیالات ہی گھومتے رہتے ہیں۔ اوہائیو یونیورسٹی کی سروے نما تحقیق کا دعویٰ ہے کہ مرد حضرات اوسطاً دن بھر میں 34 بار سے زائد رومانوی تعلق کے بارے میں خیالی پلاﺅ بنانا پسند کرتے ہیں۔ یعنی ہر 28 منٹ بعد انہیں اپنی بیوی یا محبوبہ کی یاد ستانے لگتی ہے۔
اس کے مقابلے میں خواتین اس معاملے سے کافی دور ہیں ان کا اوسط 51 منٹ کا بنتا ہے۔ اوہائیو یونیورسٹی کی تحقیق کے بقول مرد حضرات دن بھر میں کم از کم 25 بار کھانے اور 29 بار سونے کے بارے میں سوچتے ہیں، جبکہ خواتین ہر 62 منٹ بعد کھانے اور ہر 72 منٹ بعد سونے کے بارے میں سوچتی ہیں۔