پاکستان

سکرنڈ اسٹیشن: چوبیس سال سے ایک ٹرین کا منتظر

ماضی میں سکرنڈ اسٹیشن ایک مصروف جنکشن تھاجس کی تعمیر 1936میں ہوئی تاکہ نوابشاہ کی بستیوں کوباقی ملک کے ساتھ جوڑا جاسکے۔

تحریر و تصاویر: فاروق سومرو


سکرنڈ ریلوے اسٹیشن سے ہوسکتا ہے کہ آخری ٹرین کو چلے 24 سال کا عرصہ ہونے والا ہو مگر اس کی عمارت اب بھی مقامی افراد کے لیے اجتماع کا مقام ہے۔ وقت نے اسٹرکچر پر اثرات ضرور مرتب کیے ہیں مگر اس کی شان و شوکت اب بھی محسوس کی جاسکتی ہے جو کہ برصغیر بھر میں تعمیر کیے جانے والی ریلوے عمارات کا خاصہ ہے اور یہ ریلوے لائنوں سے جڑی یادیں اور جذبات کو جگا دیتا ہے۔

ہم کراچی سے نوابشاہ جارہے تھے جب میں نے سکرنڈ کے قصبے میں کچھ دیر رکنے کا فیصلہ کیا۔ سکرنڈ کی جانب بڑھتے ہوئے گلیوں کی دیواروں نے میری نظروں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرالی جو کہ سب کی سب ٹیلی کام پیکجز کے اشتہارات سے بھری ہوئی تھیں۔

سکرنڈ اسٹیشن اس پرسکون قصبے کے مضافات میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔

اس اسٹیشن کی باہری دیواروں پر مقامی سیاسی لیڈرز کے پوسٹرز اور نعرے بھرے پڑے تھے اور جب میں اندر داخل ہوا تو میں نے احاطے کے وسط میں لوگوں کے ایک گروپ کو کھڑے ہوئے پایا۔ یہاں ہونے والا شور شرابہ کسی چھوٹے بازار کی یاد دلاتا ہے اور درحقیقت یہ موبائل فونز کی چھوٹی سی مارکیٹ ہی بن چکی ہے۔ ہماری قوم میں موبائل فون ڈیوائسز کا کنٹرول سے باہر اشتیاق ہے اور اس طرح کی مارکیٹیں ایک دوسرے سے رابطے میں رہنے کے لیے ہمیں سہولیات فراہم کرتی ہیں۔

عمارت کے اندر یہاں وہاں لوگوں کا ہجوم چھوٹے چھوٹے گروپس کی شکل میں احاطے میں گھوم رہا تھا اور باہر موجود ریلوے ٹریک غائب جبکہ وہاں بھینسیں سردیوں سے ٹھٹھرتی سورج کی شعاعوں میں آرام کررہی تھیں۔ اسٹیشن کے ایک کونے میں پارسل گودام ہے جسے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ وہاں اب وسط میں پول ٹیبل رکھی ہوئی ہے اور کچھ بچے ہمارے سامنے کھیلنے میں مصروف تھے۔ وہاں کچھ تاریک کیلنڈرز بھی دیواروں پر لٹکے ہوئے تھے جبکہ ایک بلب چھت سے لٹک رہا تھا۔

ہم وہاں سے باہر نکلے۔ لوگ جاننا چاہتے تھے کہ کیا ہمارا تعلق ریلوے ہیڈکوارٹرز سے ہے اور کیا ہم سکرنڈ میں ریلوے سروس کی بحالی کے لیے کچھ کرسکتے ہیں یا نہیں۔

اپنے ماضی میں سکرنڈ اسٹیشن ایک مصروف جنکشن تھا جس کی تعمیر 1936 میں ہوئی تاکہ بھٹ شاہ اور نوابشاہ کی دیگر بستیوں کو باقی ملک کے ساتھ جوڑا جاسکے۔ لوگوں نے ہمیں بتایا کہ یہاں سے آخری ٹرین 1991 میں نکلی تھی جس کے بعد پاکستان ریلوے نے اس خطے سے آمدنی نہ ہونے کے باعث سروس کو ختم کردیا۔ تاہم مقامی افراد اب بھی پرامید ہیں کہ ایک دن یہ سروس پھر بحال ہوگی۔