نقطہ نظر

گرو مندر: ہے تو کہاں ہے؟

کراچی میں گرو مندر کے علاقے کو تو سب جانتے ہیں، لیکن گرو کا مندر ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتا۔

گرو ہندی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی استاد یا پیشوا کے ہوتے ہیں۔ لیکن اس لفظ کو اصل فروغ سکھ مت کی وجہ سے ملا۔ سکھوں کے مذہبی پیشواؤں کو گرو کہتے ہیں جیسے سکھ مت کے بانی بابا گرو نانک۔ اردو ڈکشنری بورڈ کی مطبوعہ اردو لغت کے مطابق سکھ مذہب کی کتاب کو گرو پرنالی کہتے ہیں۔ اسی طرح ان کی مذہبی عبادت گاہ کو گرو دوارہ کہتے ہیں۔ سکھوں کی مذہبی کتاب کا عام فہم نام گرو گرنتھ ہے۔ گرو دیو بھی ایک نام ہے یعنی بڑا گرو۔ اردو اور ہندی میں گرو گھنٹال کا چلن بھی عام ہے جو عموماً منفی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ تو ہوگئے لفظ گرو کے معنی اور مختلف استعمال۔ کراچی میں بسنے والے کروڑوں افراد میں شاید ہی کوئی فرد ایسا ہو جسے گرو مندر کے محل وقوع کا علم نہ ہو یا وہ کبھی اس چوک سے نہ گزرا ہو۔ ہمارا شمار بھی ان افراد میں کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے دل میں ہمیشہ ایک خواہش رہی کہ گرو مندر کا چوک تو دیکھا ہوا ہے، کبھی گرو مندر بھی ہو آئیں۔ جب بھی مزارِ قائد کے سامنے واقع قائد اعظم اکادمی سے کسی دستاویز کی فوٹو اسٹیٹ کروانی ہوتی تو گرو مندر چوک پر فوٹو اسٹیٹ کے لیے جاتے۔ چوک کے اطراف میں ایک بہت بڑی مسجد ہے جسے سبیل والی مسجد کہا جاتا ہے موجود ہے، جبکہ دائیں جانب ایک گول ٹائپ مارکیٹ ہے جس میں ایک یتیم خانہ، اور پوشیدہ سی گوشت اور سبزی مارکیٹ ہے، لیکن مندر کہیں نہیں۔

ہمارے پاس موجودہ جمشید ٹاؤن کا ادھورا اور سابقہ جمشید کوارٹر کا 1971 کا مکمل نقشہ بھی موجود ہے لیکن اس نقشے میں بھی کہیں گرو مندر نظر نہیں آیا۔ یہ نقشہ لے کر ہم اپنے ایک دوست صحافی کفیل فیضان کے توسط سے جمشید ٹاؤن کے دفتر پہنچے اور وہاں شعبہ تعلقات عامہ کے فرحان صاحب سے ملاقات کی۔ انہوں نے نقشہ دیکھنے سے قبل ہی یہ بتا دیا کہ اب تک کے ریکارڈ کے مطابق گرو مندر چوک تو ہے لیکن گرو مندر نہیں ہے۔ ہاں البتہ گرو مندر سے سولجر بازار کی جانب جاتے ہوئے ایک مندر ہے۔ ہمارے ایک صحافی دوست نے بتایا کہ سبیل والی مسجد کے ساتھ ایک گلی میں گرو کا مندر ہے۔

خیر ہم اور ہمارے ساتھی ولید احسان اگلے دن گرو مندر کے علاقے میں پہنچے۔ سبیل والی مسجد کی عقب والی گلی، جو انتہائی چھوٹی سی ہے، میں دو افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ ان سے مندر کا پتہ پوچھا تو انہوں نے گرو مندر چوک پر گول مارکیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انتہائی اعتماد کے ساتھ کہا کہ مندر مارکیٹ کے درمیان میں ہے۔ مارکیٹ کے مرکز میں پہنچے تو وہاں کوئی مندر نہیں تھا۔ وہاں موجود ایک صاحب سے معلوم کیا تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ پیپلز سیکریٹیریٹ سے متصل سڑک جو کشمیر چوک کی جانب جا رہی ہے، اس پر تھوڑا سا آگے جا کر دائیں جانب ایک پیٹرول پمپ ہے اس کے ساتھ ہی گرو مندر ہے۔

ہم فوراً اس جانب چل دیے۔ وہاں پیٹرول پمپ پہنچے۔ وہاں پر موجود ایک صاحب سے مندر کے بارے میں دریافت کیا تو پہلے انہوں نے ہمیں سولجر بازار والے مندر کے بارے میں بتایا۔ ہم نے ان سے درخواست کی کہ اس مندر کا ہمیں پتہ ہے لیکن وہ گرو مندر نہیں ہے۔ چند لمحوں کے لیے وہ سوچ میں ڈوب گئے۔ پھر انہوں نے مجبوراً پان تھوکتے ہوئے کہا 'بھائی جان اسلامیہ کالج کے سامنے گولہ دیکھا ہے؟' ہم نے کہا گولہ؟ وہ پھر بولے 'ہاں گولہ۔' ہم نے حیران ہو کر کہا کون سا گولہ؟ وہ بولے دنیا کا گولہ۔ بات ہماری سمجھ میں آرہی تھی، ان کا اشارہ داؤد انجینئرنگ کالج کے سامنے لگے ہوئے دنیا کے نقشے کی طرف تھا۔

ہم نے اقرار کیا کہ ہاں گولے پر پہنچ گئے۔ پھر وہ بولے، تین سے چار گلیاں کراس کر کے الٹے ہاتھ پر ایک گلی آئے گی۔ اس میں داخل ہوجائیں سامنے مندر ہے۔ اب داؤد انجینئرنگ کی مخالف سمت پر موجود سڑک پر پہنچے ایک گلی وہاں تو ہر گلی میں رکاوٹیں لگی ہوئی تھیں۔ خیر ایک گلی سے علاقے میں داخل ہوئے۔ 3 سے 4 گلیاں کراس کرنے کے بعد ہمیں ایک مندر نظر آگیا۔ مندر کو دیکھتے ہی سکون کا سانس لیا۔ مرکزی دروازے پر ایک تختی آویزاں تھی:

دروازہ اندر سے بند تھا۔ چاروں جانب خاموشی تھی۔ گھنٹی بجانے پر اندر سے ایک خاتون کی آواز آئی کون؟ ہم نے مشرقی روایات کے مطابق معلوم کیا کہ گھر میں کوئی مرد ہے؟ اندر سے آواز آئی نہیں، کیا بات ہے؟ ہم نے کہا مندر کے بارے میں کچھ معلوم کرنا ہے۔ خاتون نے کہا کہ ان کے شوہر اس وقت گھر میں نہیں ہیں، دیر سے آئیں گے۔ ہم نے کہا کہ ان کا موبائل فون نمبر دے دیں۔ وہ بولیں میں لے کر آتی ہوں۔ کچھ دیر بعد ان کی آواز آئی، بھائی نمبر میرے پاس نہیں ہے۔ آپ صبح 8 بجے آجائیں۔ ان سے ملاقات ہوجائے گی۔ یا پھر ہفتے کے دن آجائیں، اس دن ان کی چھٹی ہوگی۔

گرو مندر تلاش کرنے کی ہماری امید مندر پر لگی تختی پڑھ کر دم توڑ چکی تھی۔ مندر پر لگی تختی پر صاف لفظوں میں لکھا تھا ”شری شیوبائی شیوالا“ یعنی یہ گرو مندر نہیں بلکہ ”شیو“ کا مندر تھا۔

اس پورے عمل کے دوران ملیشیا لباس میں ملبوس ایک سکیورٹی گارڈ ہمارے پاس منڈلاتا رہا۔ جب ہم واپس لوٹنے لگے تو اس نے ہماری آمد کا مقصد دریافت کیا تو ہم نے اسے بتایا کہ ہم گرو مندر کی تلاش میں نکلے ہیں۔ ان کا چہرہ اچانک روشن ہوگیا۔ وہ بولے کہ 10 سے 12 سال پہلے یہاں کچھ ہندو خواتین آتی تھیں، لیکن اب نہیں آتیں۔ ان کی گفتگو کا اگلہ حصہ انتہائی خوف ناک تھا۔ خاں صاحب بولے یہ عورت جس سے تم ابھی بات کیا ہے اس کا ایک بھائی ڈی ایس فی (پی) ہے دوسرا کسٹم میں ہوتا ہے۔ ادھری اگر ان لوگ کا شک ہوجائیں گا تو رینج رز (رینجرز) آجائے گا۔ ابھی دیکھو ام (ہم) اتنا ٹیم (ٹائم) سے ادھری (ادھر) گارڈ ہے۔ فولیس (پولیس) کو اگر بتاوے گا ادھر وارادات (واردات) ہوا ہے نئی (نہیں) آئے گا۔ مگر خدا قسم یہ ایک فون کرے تو سبھی آجائے گا۔

ہم نے ان کی بات سن کر ان سے صدر جانے کا راستہ پوچھا اور یوں ہم پریس کلب کی جانب روانہ ہوگئے۔ پریس کلب پہچنے کے بعد جب ہم نے اپنے دوست ماہر تعلیم پروفیسر کرن سنگھ سے اس مندر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ”شیوالا“ مندر کو بھی کہتے ہیں اور”شیو“ کے مندر کو بھی کہتے ہیں۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے احاطے میں واقع ایک مندر کے پجاری وجے مہاراج سے جب ہم نے گرومندر کی بابت معلوم کیا تو انہوں نے بتایا کہ گرومندر چوک تو ضرور ہے لیکن اس علاقے میں گرومندر نامی کوئی مندر نہیں ہے۔

ہفتے کے دن میں اپنے ایک ساتھی عبدالوہاب حسن کے ساتھ مذکورہ مقام پر پہنچا۔ اس وقت دن کے تقریباً 12 بج رہے تھے۔ گھنٹی بجانے پر ایک صاحب نے دروازہ کھولا اور دونوں ہاتھ جوڑ کر ہمیں خوش آمدید کہا۔ ہم نے کہا کہ ہم مندر کے بارے میں کچھ معلومات لینے آئے ہیں۔ انہوں نے دوبارہ ہاتھ جوڑے اور کہا آجائیے۔ ہم اندر داخل ہوگئے۔ وہ خود مندر کے فرش پر بیٹھ گئے اور ان کے ساتھ ایک ملاقاتی بھی تھا۔ ملاقاتی کی طرف ہاتھ جوڑ کر معذرت کی اور دوبارہ ہماری جانب ہاتھ جوڑ کر ہمیں ایک بار پھر خوش آمدید کہا اور اس کے بعد اپنے بیٹے کو آواز دی کہ مہمانوں کے بیٹھنے کے لیے ”رلّی“ (ایک سندھی چادر جو عموماً مہمانوں کو بٹھانے کے لیے فرش پر بچھائی جاتی ہے) لانے کے لیے کہا لیکن ہم تب تک مندر کے فرش پر بیٹھ گئے تھے اس لیے ان کا بیٹا ہمارا منہ ہی تکتا رہا۔

سنتوش صاحب نے ایک بار پھر ہاتھ جوڑ کر ہمارے آنے کا مقصد معلوم کیا۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ہم ”گرومندر“ کی تلاش میں آئے ہیں۔ وہ مسکرائے اور کہا کہ گرومندر چوک تو ہے لیکن گرو کا مندر کہاں ہے یہ کسی کو معلوم نہیں۔ اپنے مندر کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ 1992 میں جب بابری مسجد کو مسمار کیا گیا تو اس کے ردِ عمل میں اس مندر کو بھی مسمار کر دیا گیا، یہاں تک کہ پجاری کشن چند نے بمشکل اپنی جان بچائی اور یہاں سے بھاگ نکلا۔ ہم نے ان سے دریافت کیا کہ یہ مندر شیوالا کیوں ہے تو انہوں نے بتایا کہ شیوالا اس مندر کو کہتے ہیں جو شیو جی کا مندر ہو لیکن اس میں گئو (گائے) بھی موجود ہوں۔ مندر کے ساتھ والا جو پلاٹ آپ دیکھ رہے ہیں جس پر اب ایک کار شو روم والے کا قبضہ ہے دراصل یہاں پر گائے باندھی جاتی تھیں اور ان کے لیے پانی کا بندوبست بھی ہوتا تھا۔ لیکن بابری مسجد کے واقعے کے بعد یہ حصہ مندر سے جدا کر دیا گیا اور اب وہاں کاروں کا شو روم ہے۔ ہم نے ان سے پوچھا کیا یہ ”گرومندر“ ہے تو انہوں نے ایک بار پھر ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا کہ یہ گرو کا مندر نہیں ہے۔

کافی دنوں بعد ہم اپنے فوٹو جرنلسٹ دوست آصف حسن (جو ایک مظاہرے کی کوریج کرتے ہوئے گولی لگنے سے شدید زخمی ہوگئے تھے) کی عیادت کے لیے آغا خان اسپتال گئے۔ وہاں سے واپس لوٹتے وقت ہمارے دوست فوٹو جرنلسٹ اختر سومرو ہمارے ہمراہ تھے۔ ہم نے ان سے کہا کہ گرومندر ہوتے ہوئے چلتے ہیں۔ وہ ہمارے ساتھ ہو لیے۔ ”گرومندر“ پہنچ کر ہم نے ایک بار پھر لوگوں سے مندر کا پتہ دریافت کیا مگر لوگ ”گرومندر“ کے وجود سے انکاری تھے۔

ہم سبیل والی مسجد کی پچھلی گلیوں کی جانب گئے۔ ہم آگے بڑھ رہے تھے کہ اچانک اختر سومروصاحب نے رکنے کو کہا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک بار ہنگاموں کے دوران ٹھیک اسی مقام پر ہمارے ساتھی فوٹو جرنلسٹ نعیم الحق کی موٹر سائیکل نذر آتش کی گئی تھی۔ اس جگہ کا دیدار کر کے ہم لوٹنے لگے تو ایک بار پھر اختر سومرو کی آواز آئی، رکو!! ہم نے کچھ جنجھلا کر کہا اب کیا ہوا۔ انہوں نے گلی کے کونے پر واقع ایک بنگلے کے کھلے گیٹ کی طرف اشارہ کیا۔ بنگلے کے اندر عمارت کی پیشانی پر انگریزی میں کچھ لکھا تھا۔ ہم خاموشی سے بنگلے میں داخل ہوگئے۔ بنگلہ بالکل سنسان تھا۔ قریب جا کر دیکھا تو انگریزی میں لکھا تھا:

'گر مندر'

ہم نے فوراً تصویریں بنانی شروع کردیں۔ ابھی ہم تصویریں بنا ہی رہے تھے کہ بنگلے کے اندر ایک کونے پر بنی ایک بد وضع مختصر سی دومنزلہ عمارت، جو تجاوزات لگ رہی تھی، اچانک اس کی بالائی منزل کی ایک کھڑکی کھلی جس میں سے ایک خاتون کا چہرہ نمودار ہوا اور وہ چلا چلا کر کہنے لگی 'گھر کی تصویریں کیوں بنا رہے ہو؟'۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور خاتون بھی اسی طرح چلانے لگیں۔ چند لمحوں بعد ایک خونخوار چہرے والے صاحب نمودار ہوئے اور وہ بھی اسی طرح چلانے لگے کہ کس کی اجازت سے آئے ہو۔ ہم کراچی کی قدیم عمارتوں کی تصویریں بناتے ہوئے بارہا ایسی صورت حال کا شکار ہوچکے ہیں اور کبھی کبھار اس کے نتائج بہت سنگین ہوتے ہیں۔ ہم نے وہاں سے نکلنے میں عافیت جانی۔ گو کہ ہمارا دل چاہ رہا تھا کہ بنگلے کا مکمل معائنہ کیا جائے اور مزید تصویریں بنائی جائیں۔ بہرحال ایک بات تو ثابت ہوئی کہ یہ گرو مندر نہیں بلکہ ”گر مندر“ ہے۔

گرو مندر کا نام بدلنے کی دو بار بڑے بھر پور انداز میں کوشش کی گئی۔ پہلی بار 1992 میں جب بھارت میں بابری مسجد کا تنازع اٹھ کھڑا ہوا، اس وقت اس چوک کا نام بابری چوک رکھا گیا اور چوک کے آس پاس کی دیواروں پر بابری چوک لکھ دیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود یہ گرو مندر ہی رہا۔ 30 مئی 2004 کو جامعہ بنوریہ کے مہتمم مفتی نظام الدین شام زئی کے قتل کے بعد اسے شامزئی چوک بنایا گیا لیکن گروجی سے منسوب چوک کا نام بدلنے کی تمام کوشیں ناکام رہیں اور یوں یہ چوک آج بھی گرو مندر چوک ہے جبکہ مندر کا کچھ اتا پتا نہیں۔

گر مندر کی عمارت اپنی ظاہری وضع قطع سے نہ یہ مندر لگتی ہے، اور نہ ہی اس عمارت کی کوئی تصاویر یا اس سے متعلق معلومات کسی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ ہم تو اپنی تحقیق میں یہیں تک پہنچ سکے، کیا آپ اس عمارت کو ڈھونڈ سکتے ہیں؟

— تصاویر بشکریہ اختر بلوچ

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔