پاکستان

لندن میں پی آئی اے کی 2 پروازوں کی 'اچانک' تلاشی

کسٹم حکام نے پی کے 785 اسلام آباد اور پی کے 787 کراچی پر بغیر وجہ بتائے چھاپہ مارا اورتلاشی کے بعد مسافروں کو جانے دیا۔

لندن: قومی ائیرلائن پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی دو پروازوں کی پیر کو برطانیہ میں کسٹم حکام کی جانب سے مکمل تلاشی لی گئی ہے۔

نمائندہ ڈان نیوز کے مطابق کسٹم حکام نے دونوں پروازوں پر بغیر وجہ بتائے چھاپہ مارا اورتلاشی کے بعد مسافروں کو جانے دیا۔

ذرائع کے مطابق پی کے 785 اسلام آباد اور پی کے 787 کراچی کی پروازوں کے عملے کی اس وقت مکمل تلاشی لی گئی، جب پروازوں نے لندن میں لینڈ کیا۔

ایک گھنٹے پر محیط اس چھاپے کے دوران ایئر کرافٹ کے آلات کی بھی مکمل تلاشی لی گی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کسٹم حکام کسی مخصوص شخص یا چیز کی تلاش میں تھے، تاہم اس حوالے سے تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔

دوسری جانب پی آئی اے ترجمان رانا حنیف نے ڈان سے گفتگو میں اس تلاشی کو 'معمول' کی کارروائی قرار دیا۔

رانا حنیف کے مطابق 'یہ چھاپے اب معمول بن گئے ہیں۔ وہ جب چاہتے ہیں ہمارے جہازوں کی تلاشی لے لیتے ہیں حتیٰ کہ مسافروں کو بھی سیکیورٹی چیکس سے گزارا جاتا ہے'۔

'برطانوی حکام ہمارے مسافروں کو بھی جہاز سے آف لوڈ کر دیتے ہیں اور جب انھیں کچھ نہیں ملتا تو وہ انھیں دوبارہ جہاز میں سوار ہونے اور جہاز کو روانہ ہونے کی اجازت دے دیتے ہیں'۔

رانا حنیف کے مطابق اس طرح کا ایک واقعہ گزشتہ ماہ بھی پیش آیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پی آئی اے نے اس معاملے کو وزارت داخلہ کے ذریعے برطانوی حکام کے سامنے اٹھایا ہے اور ہمارے کنٹری مینیجر نے بھی اس حوالے سے ایک شکایتی خط تحریر کیا ہے کہ جب مسافروں کو ایئرپورٹ پر سیکیورٹی کے مراحل سے گزرا جاتا ہے تو اس کے بعد اس طرح کی تلاشیاں کیوں لی جا رہی ہیں'۔

انھوں نے مزید کہا کہ 'ایک قوم کے طور پر ہمیں ذلیل کیا جارہا ہے لیکن ہم ان پر دباؤ نہیں ڈال سکتے، کیونکہ ہمارے ملک میں سیکیورٹی کی صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں'۔

کسی زمانے میں ملک کا فخر کہلانے والی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) اب ہر کسی کے مذاق کا نشانہ بن گئی ہے اورپی آئی اے کے مخفف کو 'شاید ہی میں پہنچ سکوں' (Perhaps I'll Arrive) سے تعبیر کیا جاتا ہے جبکہ پروازوں کی منسوخی بھی ایئرلائن کا ایک معمول بن چکی ہے۔

اس سے قبل پی آئی اے کے ایک پائلٹ کو برطانیہ میں اُس وقت جیل کی ہوا کھانی پڑی جب اس نے مقررہ مقدار سے تین گنا زائد الکوحل لے رکھی تھی، جبکہ ایک اور پائلٹ نے نیو یارک جانے والی فلائٹ اڑانے میں دو گھنٹے تک اس وجہ سے تاخیر کی کیونکہ اس کا سینڈوچ نہیں پہنچا تھا۔

یہ اور اس قسم کے بہت سے واقعات ہیں جو پاکستان کی قومی ایئرلائن کے لیے شرمندگی کا باعث بنتے رہتے ہیں۔