نقطہ نظر

Pakistan#: ٹوئٹر پر موجود قوم

کسی چیز پر ہماری توجہ صرف تب تک برقرار رہتی ہے، جب تک کہ ٹوئٹر کی 'ٹرینڈنگ لسٹ' میں کوئی ٹرینڈ برقرار رہتا ہے۔

یہ سچ ہے، ہم ٹوئٹر کے ہیش ٹیگز کی قوم ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ کسی چیز پر ہماری توجہ صرف تب تک برقرار رہتی ہے، جب تک کہ ٹوئٹر کی 'ٹرینڈنگ لسٹ' میں کوئی ٹرینڈ برقرار رہتا ہے۔

ہمارے پاس کسی بھی مسئلے پر سنجیدہ اور علمی بحث نہیں ہوتی۔ اس کے بجائے ہم لوگ غصے میں بھر جانے کے بعد ایسی باتیں کرتے ہیں جو ہمیں سامنے موجود سانحے سے باہر آنے میں مدد دیں۔

چاہے یہ StaySafe# ہو، WeShallSurvive# ہو،EverythingIsAwesome# ہو، یا ____DownWith# ہو، مسائل سے نمٹنے کی ہماری اجتماعی صلاحیت صرف ٹوئٹر کے ہیش ٹیگز تک ہی رہ گئی ہے۔

ہاں یہ سب درست ہوتا اگر پاکستان نام کا ملک ٹوئٹر یا فیس بک پر ہی ہوتا۔ لیکن ہماری اور انٹرنیٹ پر موجود کارکنوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ ایک ملک پاکستان ہے جو حقیقت میں وجود رکھتا ہے، اور جس کے حقیقی مسائل ہیں، اور یہ مسائل ایسے ہیں جن پر جذباتی ردعمل دینا بالکل بے عقلی کی بات ہے۔

مثال کے طور پر سانحہ پشاور کو لیجیے۔

سب سے پہلے دکھ اور غصہ سامنے آیا۔ اس کے بعد سانحے پر سیاست شروع ہوئی۔ اس کے نتیجے میں فوجی عدالتیں قائم ہوگئیں۔

132 بچوں کے قتلِ عام کے نتیجے میں ہمارے پاس صرف کچھ پریس کانفرنسیں ہوئیں، شمعیں جلائی گئیں، سوشل میڈیا پر بڑی بڑی باتیں کی گئیں، اور فوجی عدالتیں قائم کردی گئیں۔

تو یہاں پر کس کی غلطی ہے؟

سب کی۔

سیاستدانوں کی غلطی یہ ہے کہ وہ ایک لمحے کے لیے بھی صورتحال پر قابو نہ پا سکے۔ جب قوم کو ایک رہنما اور سمت کی ضرورت تھی، اس وقت ہمارے سیاستدانوں نے ایک آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا، جو کہ اس بات کا اشارہ ہے کہ ان کی ترجیح سب سے پہلے ایک ساتھ بیٹھ کر روٹیاں توڑنا، اور اس کے بعد عوام کے سامنے کھڑے ہو کر ان سے بچوں کا بدلہ لینے کا منصوبہ بیان کرنا ہے۔

میڈیا نے ہمیشہ کی طرح معاملہ بگاڑا۔ بجائے اس کے کہ یہ ہمیں درپیش مسئلے کی شدت پر کچھ کہتا، اس نے سانحے سے فائدہ اٹھانے کو ترجیح دی۔ سچ کی تلاش کرنے اور حقیقت آشکار کرنے کے بجائے ہمارے میڈیا نے بچوں کی اموات سے دولت بنانے کو ترجیح دی۔

کسی بھی موقع پر میڈیا کی جانب سے یہ سوال نہیں اٹھایا گیا، کہ اس قدر محفوظ علاقے میں اس طرح کا حملہ کیسے ہوسکتا ہے۔

کسی بھی موقع پر میڈیا نے حکام کو مقامی سکیورٹی کے لیے حکام کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔ اور اس سے بھی زیادہ، میڈیا نے چالیس دن کے سوگ کا بھی لحاظ نہیں کیا، اور فوراً ہی پیسے بنانے کے لیے ایک نیا موضوع، یعنی شادی، ڈھونڈ لیا گیا۔

سول سوسائٹی کی بھی غلطی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ کئی معاملات میں سول سوسائٹی دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ نیک عزائم رکھتی ہے، لیکن انہوں نے بھی غلطی کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔

مسئلہ طالبان کے ہاتھوں 141 لوگوں کے قتل ہونے کا تھا۔ لیکن اس نے طالبان کے خلاف محاذ کھڑا کرنے کے بجائے دائیں بازو کے مذہبی لوگوں کو خطرہ بنا کر پیش کرنا شروع کردیا۔ بجائے اس کے کہ ضرورت کے وقت قوم کو جانی دشمن کے خلاف ذہنی طور پر متحد کیا جاتا، انہوں نے بنیاد پرست مولویوں کو نشانہ بنایا۔

بنیاد پرست مولوی مسئلہ ہیں، لیکن یہ نمبر ون مسئلہ نہیں ہیں۔

موضوع سے توجہ ہٹا کر ہم لوگ نہ یہاں پہنچ سکے اور نہ وہاں۔

لال مسجد وہیں ہے جہاں وہ تھی، اور تب تک رہے گی جب تک اس کے حقیقی سرپرست اس کا وہیں رہنا چاہیں۔ طالبان اب بھی اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہم لوگ بالکل وہیں پر ہیں جہاں ہم تھے، اور یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ ہماری سول سوسائٹی نے تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوامی ترجیحات کو نہیں سمجھا۔

سب سے آخر میں ہماری عوام کی غلطی ہے۔ اگر ہماری عوام صرف تین ہفتوں میں اس قدر اندوہناک سانحے کو بھلا کر ایک پینشنر کی شادی کا مزہ لے سکتی ہے، تو یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اخلاقی طور پر کس قدر گر چکا ہے۔

دسمبر 17 سے دسمبر 21 تک جو غصہ دیکھا گیا، وہ ختم ہوچکا ہے۔

مجھے یہ کہنے دیجیے کہ ہماری قوم کو اب یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ ہم سب، ہم میں سے ہر ایک ہمارے صدر ہی کی طرح ہے۔WeAreAllMamnoonHussain#

ہم لوگ تب تک سامنے نہیں آتے جب تک کچھ انتہائی اندوہناک نہ ہوجائے۔ اس کے بعد ہم لوگ اپنے آرامدہ بستروں سے باہر نکلتے ہیں، تھوڑا غصہ دکھاتے ہیں، ایک دو بیانات دیتے ہیں، اور جیسے ہی کیمرے اور لائٹیں بند ہوجائیں، ہم اپنے اپنے صدارتی محلات میں واپس چلے جاتے ہیں۔

تو اب جب بھی کوئی سانحہ ہو، تو ہیش ٹیگز کا بے دریغ استعمال کرنے اور جذباتی ہونے کے بجائے اگلے ہیش ٹیگ پر چلے جائیں، کیونکہ ویسے بھی آپ نے جو کچھ بھی کہنا ہے، اس سے فرق تو پڑنا نہیں ہے۔

ہیش ٹیگز والی قومیں اتنی زیادہ تر ٹرینڈنگ لسٹ پر قائم نہیں رہتیں کہ وہ کچھ تبدیلی لا سکیں۔

ہم نہ ہی اعتزاز حسن ہیں، اور نہ ہی ان 132 بچوں کے خاندان والے۔

ہم پچھلی دہائی میں 50،000 جانیں گنوا دینے والے لوگ بھی نہیں ہیں۔

ہم بے حس، کچھ لمحات کے لیے جاگنے والے، چلتے پھرتے مردہ لوگ ہیں، جو صرف اور صرف اپنے آپ میں جیتے ہیں۔

ہمارے نزدیک صرف ایک چیز اہمیت رکھتی ہے، اور وہ یہ کہ ہمارا یہ ہیش ٹیگ کتنی دیر قائم رہتا ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

عدنان رسول

لکھاری جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی سے سیاسیات میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر adnanrasool@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔