نقطہ نظر

کراچی گھومنے کا ایک نیا انداز

کراچی کی ہنگامہ خیز زندگی نے شہریوں کو اس شہر کی سنہری تاریخ سے دور کر دیا ہے، جسے دوبارہ جاننے کی ضرورت ہے۔

کراچی شہر کی ہنگامہ خیز فطرت کا ایک نتیجہ ایسا ہے جس کا تجربہ ہمیں روزانہ ہوتا ہے لیکن ریاست، شہری، اور طاقتور لینڈ ڈیولپرز شاید ہی اس کے بارے میں کچھ کرتے ہیں، اور وہ ہے شہر میں چلنے پھرنے کے مواقع کی کمی۔

کراچی میں پیدل چلنا اب صرف ساحل، پارکس، شاپنگ مالز، اور رہائشی پلازوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، جن کی دیواریں اتنی اونچی کردی جاتی ہیں کہ لوگ 'غیر محفوظ' کھلے شہر سے علیحدہ رہیں۔

یہ جو کہا جاتا ہے کہ شہر کا مزہ پیدل گھومنے میں ہے، اس کا صحیح اندازہ تب ہوتا ہے جب آپ کسی دوسرے ملک میں جائیں، کیونکہ ملک کے اندر تو صورتحال ہر وقت نازک ہی رہتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کراچی کا ایک اوسط شہری اگر اپنے شہر اور اس کی تاریخ سے واقف ہو پاتا ہے، تو بھی کئی پابندیوں کے ساتھ۔

اسی لیے جب مجھے کراچی کے نوجوانوں کی جانب سے اٹھائے گئے ایک حالیہ قدم کے بارے میں علم ہوا، تو میرے اندر شہر کی گلیوں میں گھومنے اور ایک رنگ برنگی منی بس کے اوپر سفر کرنے کی خواہش زور پکڑنے لگی۔

پڑھیے: بمبئی نہ بنی ممبئی

ایک ہفتے کے اندر ہی میں نے سپر کراچی ایکسپریس میں ایک سیٹ بک کروا لی۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ کیا توقع رکھنی چاہیے، کیونکہ ٹور گائیڈز پہلے سے نہیں بتاتے کہ وہ کس جگہ لے کر جائیں گے۔ اس سے ایک تو سرپرائز قائم رہتا ہے، اور دوسرا یہ ایک سکیورٹی اسٹریٹجی بھی ہے۔

ٹور کی قیمت، جس میں مقامی ڈھابے پر چائے پراٹھے یا حلوہ پوری کا ناشتہ شامل ہے، شہر کے کسی بھی لگژری سنیما میں مووی ٹکٹ کے برابر ہے، لیکن بلاشبہ اس سے کہیں زیادہ زبردست۔

پھر ایک اتوار کی صبح ہم سپر کراچی ایکسپریس میں سوار ہوئے، اور صدر میں زیب النساء اسٹریٹ جا پہنچے۔ صبح کے اس وقت شہر انگڑائی لے کر اٹھنے کی تیاری کر رہا ہوتا ہے۔ یہ سڑک کراچی کی دوسری سڑک ہے جو کسی عورت کے نام پر ہے — پہلی سڑک فاطمہ جناح روڈ ہے۔

پہلے اس سڑک کو ایلفنسٹن اسٹریٹ کے نام سے جانا جاتا تھا، اور اس کی پہچان کراچی کے لیے وہی تھی جو لندن کے لیے پکاڈلی سرکس کی ہے۔ اس سڑک کو بعد میں زیب النساء حمیداللہ کے نام سے منسوب کر دیا گیا جو بنگالی تھیں، اور 1948 میں انہوں نے پاکستان کی پہلی خاتون انگریزی کالم نگار ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ وہ ڈان، دی مرر، دی مارننگ نیوز، اور دیگر اشاعتوں کے لیے لکھا کرتی تھیں۔

زیب النساء اسٹریٹ پر ہی ایک عمارت محمد علی بلڈنگ ہے۔ ہمارے گائیڈ نے ہمیں بتایا کہ یہ حکومتِ بیلجیئم کی ملکیت ہے جس نے آزادی کے بعد اسے پاکستان کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ اس کی وجہ سے اس تاریخی عمارت کی دیکھ بھال نہ ہونے کے برابر ہے۔

اس کے بعد ہمیں کراچی پارسی انسٹیٹیوٹ لے جایا گیا۔ 1893 میں قائم ہونے والی اس عمارت کو پہلے پارسی جیمخانہ کہا جاتا تھا۔ یہاں پر 'ایڈ اور نیڈ' کے مجسمے موجود ہیں۔ ایڈولجی ڈنشا تقسیم سے پہلے کراچی کی پارسی کمیونٹی کے ایک نامور بزنس مین اور فلاحی شخصیت تھے۔ ان کے بیٹے نیڈ یا نادرشاہ ایڈولجی ڈنشا نے اپنے والد کے کام کو جاری رکھا۔

مزید پڑھیے: ایلفی بن گئی زیبی

نیڈ کی وفات کے بعد ان کے بچوں نے پرنس آف ویلز انجینئرنگ کالج کو بڑی رقوم عطیہ کیں۔ آج اسے این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنولاجی کہا جاتا ہے۔ کراچی پارسی انسٹیٹیوٹ میں پارسی کمیونٹی کے لیے اسپورٹس سہولیات بھی موجود ہیں جن میں کرکٹ گراؤنڈ اور بلیئرڈ روم شامل ہیں۔ ہمیں وہاں موجود ہونے کی اجازت تو نہیں، لیکن پھر بھی ہمیں برداشت کر لیا جاتا ہے۔

مختلف ثقافتوں اور مذاہب سے متعارف کروانے کے وعدے پر قائم رہتے ہوئے سپر کراچی ایکسپریس ہمیں شری سوامی نارائن مندر تک لے گئی۔ ویسے تو پاکستان میں ہندو مندروں میں مسلمانوں کو داخلے کی اجازت نہیں دی جاتی، لیکن سپر کراچی ایکسپریس کی درخواست پر انتظامیہ نے اندر جانے دیا۔

یہ مندر ایک پوشیدہ علاقے کے جیسا محسوس ہوتا ہے جہاں سکون ہی سکون ہو، لیکن ایسا کراچی کی ہندو اقلیتی آبادی کے بالکل متضاد ہے، جو کہ 1947 میں شہر کی مکمل آبادی کا 51 فیصد تھی۔ مندر سے متصل پرانی آبادیوں کے رہنے والے ہمیں ایسے حیرانگی سے دیکھ رہے تھے جیسے ہم انہی میں سے ہوں۔

جانیے: دو سڑکیں، پانچ نام

ویرانڈہ شادیوں، دیوالی، اور دیگر میلوں وغیرہ کے لیے مختص ہے۔ اس سے آگے سیڑھیاں ہیں جن سے اوپر چڑھنے پر آپ مورتیوں والے کمرے میں پہنچ جاتے ہیں، جہاں ہر مورتی کی اپنی ایک الگ کہانی ہے۔ اندر موجود دیواروں پر گجراتی میں لکھی عبارتیں آویزاں ہیں جبکہ ریلنگ اور دیواروں پر غیر متوقع سیاحوں سے بے خوف مور ادھر ادھر گھومتے نظر آتے ہیں۔

فاطمہ جناح روڈ یا صدر میں اگر ایک ڈرائیو کی جائے، تو کراچی شہر کی 1843 سے شروع ہونے والی برطانوی تاریخ کا مشاہدہ باآسانی کیا جاسکتا ہے۔ برطانوی میراث میں ایم اے جناح روڈ پر قائم میرویدر ٹاور بھی ہے، جسے مقامی طور پر صرف ٹاور کہا جاتا ہے۔ آج یہ ٹاور بری حالت میں ہے اور وال چاکنگ سے لبریز ہے، جبکہ اس کے آس پاس کا علاقہ ایک انتہائی گنجان آباد علاقہ ہے۔ لیکن ایک وقت ایسا تھا کہ اس کی لوکیشن کی ایک منفرد اہمیت تھی۔

ٹاور کا نام ولیم میرویدر کے نام پر رکھا گیا تھا، جو 1867 سے 1877 کے بیچ میں سندھ کے کمشنر تھے۔ یہ ٹاور برٹش راج کی شان و شوکت کی علامت تھا، اور پورٹ گرینڈ کے اطراف آج جو آبادیاں قائم ہیں، ان کی تعمیر سے پہلے سمندر کے راستے کراچی آنے والوں کو کیماڑی کی بندرگاہ سے نظر آتا تھا۔

دلچسپ: ایک گمنام مندر کی کہانی

گوتھک طرِز تعمیر پر تیار کیے گئے اس ٹاور میں کچھ ستارے بھی ہیں، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اسٹار آف ڈیوڈ یا ستارہ داؤدی (یہودیوں کا مذہبی نشان) ہے۔ لیکن مشہور تاریخ دان عثمان دموہی اپنی کتاب 'کراچی تاریخ کے آئینے میں' کہتے ہیں کہ ان نشانات کا یہودیت سے لینا دینا نہیں ہے۔

ہمارے ایک گائیڈ کا کہنا تھا کہ تاریخ میں نمایاں شخصیات کو ان کے نام پر قائم عمارتوں سے پہچانا جاتا تھا، لیکن اب یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس کی تصویر کتنے بِل بورڈز پر ہے۔

بہرحال، ٹاور کے اطراف مٹائی گئی وال چاکنگ دیکھی جاسکتی ہے جو مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے کی گئی تھی، جیسے کہ ٹاور ان کی ملکیت ہو۔

ہماری اگلی منزل بندر روڈ پر قائم میمن مسجد ہے۔ مسجد کے ٹرسٹ کے مطابق یہ 1948 میں قائم ہوئی، لیکن عثمان دموہی کے مطابق موجودہ اسٹرکچر کی تعمیر سے قبل اصل میمن مسجد اسی مقام پر 1857 کے آس پاس برطانوی دور میں قائم ہوئی تھی۔ کالونیل حکمرانوں کے لیے اس کی لوکیشن (ایم اے جناح روڈ) ڈویلپمنٹ کا وہ نکتہ آغاز ہوگی، جہاں سے انہوں نے صدر اور آگے کے مقامات کا رخ کیا ہوگا۔

حیران کن: کراچی کی یہودی مسجد

ایک حقیقت جسے بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں، وہ یہ کہ یہ مسجد ایک قبرستان پر قائم ہے۔ مسجد کی ایک طرف موجود لوہے کے دروازے سے دو قبریں دیکھی جاسکتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قبرستان مسجد کی تعمیر سے قبل بھی یہاں پر موجود تھا، جس کا مطلب ہے کہ اس کی تاریخ 19 ویں صدی کے آغاز کی رہی ہوگی۔ لیکن اس کی مکمل تاریخ کا پتہ لگایا جانا ابھی باقی ہے۔

اب ہم منی بس کی چھت پر سوار ہو کر کچرے سے بھری گلیوں، اور اپنے تحفظ کے لیے ہتھیار رکھنے کی دعوت دیتی دکانوں سے ہوتے ہوئے سینٹ پیٹرک کیتھڈرل پہنچے۔

یہ کیتھڈرل 1881 میں کراچی کی بڑھتی ہوئی عیسائی آبادی کے لیے بنایا گیا تھا، اور 1991 میں مدر ٹیریسا یہاں تشریف لائیں تھیں۔ تب سے لے کر اب تک یہاں کوئی مشنری دورہ نہیں ہوا ہے۔

سینٹ پیٹرک کیتھڈرل رومن کیتھولک فرقے کا چرچ ہے۔ اب ہمارا اگلا اسٹاپ ہولی ٹرینیٹی چرچ تھا، جو پروٹسٹنٹ فرقے کا ہے، اور 1855 میں قائم کیا گیا۔ یہ اپنی آرائش اور زیبائش میں سینٹ پیٹرک سے کم ہے۔

اس چرچ کی بنیاد 1852 میں سر بارٹل فریئر نے رکھی تھی۔ دموہی کے مطابق ہولی ٹرینیٹی چرچ کا مینار اس وقت کراچی کا سب سے بلند مینار تھا، جو میرویدر ٹاور کی طرح کیماڑی پورٹ سے نظر آتا تھا۔ لیکن چونکہ علاقے کے رہائشیوں کا یہ خیال تھا کہ خراب موسم کی صورت میں یہ گر سکتا ہے، اس لیے اس کی دو بالائی منزلوں کو گرا دیا گیا۔

مزید پڑھیے: تیکھی اور ہلکی دارو

ہولی ٹرینیٹی چرچ کے اندر برطانوی اور ہندوستانی فوجیوں کے ناموں کی یادگاری تختیاں لگائی گئی ہیں، جو 19ویں اور 20ویں صدی میں مختلف جنگوں، بشمول جنگِ عظیم کے دوران مارے گئے تھے۔

سپر کراچی ایکسپریس ایک متاثر کن اقدام ہے، اور اس کے جیسی دیگر کوششوں کو سراہنا چاہیے۔ یہ نہ صرف بیرونِ ملک سے آنے والوں کے لیے ایک خوشگوار سفر ہوگا، بلکہ کراچی کے رہنے والوں نے بھی اپنے شہر کو کبھی اس انداز میں نہیں دیکھا ہوگا۔

کراچی کے ثقافتی منظرنامے میں تیزی سے آتی تبدیلیوں کے ساتھ اب شہریوں میں بھی اپنی تاریخ کھوجنے کا شوق بڑھتا جارہا ہے۔

سپر کراچی ایکسپریس جیسے مواقع کراچی والوں کو ان کی مختلف ثقافتوں والی تاریخ کے قریب رکھنے، اور ان علاقوں کے بارے میں جاننے کے لیے ضروری ہیں جنہیں دوبارہ اپنایا جانا چاہیے۔

نوٹ: سپر کراچی ایکسپریس کے ٹور میں موجود تمام جگہوں کو اس بلاگ میں تحریر نہیں کیا جارہا ہے۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری

انگلش میں پڑھیں۔

زوہا وسیم

زوہا وسیم کنگز کالج لندن میں ڈاکٹریٹ کی طالبہ ہیں، اور Strife Blog کی سینئر ایڈیٹر ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: zohawaseem@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔