اسلام آباد کے 'ماڈل' اسکول کو اسکول کہنا شرمناک
اسلام آباد : دس سالہ ثوبیہ شہزاد حکومت سے سوال کرتی ہے کہ آخر اس کے کلاس روم میں بیٹھنے کے لیے کوئی کرسی کیوں نہیں؟ پانچویں جماعت کی یہ طالبہ اسلام آباد ماڈل اسکول فار گرلز (آئی ایم سی جی) کھنہ ڈاک میں زیرتعلیم ہے جو کہ تعلیمی پالیسیوں کو تشکیل دینے والی بااختیار راہداریوں سے محض دس کلومیٹر دور ہے۔
ثوبیہ کے اسکول کی حالت و زار وہی نقشہ پیش کرتی ہے جو ملک کے پسماندہ دیہی علاقوں میں نظر آتا ہے۔ اس ماڈل اسکول کا مڈل (آٹھویں) سیکشن ایک خستہ حال کرائے کی عمارت میں چلایا جارہا ہے جبکہ پرائمری اسکول کی اپنی بلڈنگ ہے مگر اس کی حالت بھی بہت خراب ہے۔
اس اسکول میں زیرتعلیم ساڑھے چھ سو بچیوں میں سے بیشتر دریوں پر بیٹھ کر پڑھنے پر مجبور ہیں جبکہ پانچویں اور چھٹی جماعتوں کی طالبات کو تو راہداریوں کے فرش پر بیٹھنا پڑتا ہے۔
ثوبیہ بتاتی ہے " ہمیں رم آتی ہے کہ ہمارے اسکول میں نہ تو فرنیچر ہے اور نہ ہی مناسب کلاس رومز۔ میری سہلیاں نجی اسکولوں میں پڑھ رہی ہیں اور وہ اس جیسے اسکول میں پڑھنے پر میرا مذاق اڑاتی ہیں"۔
اسکول کی بیشتر طالبات بھی اسی طرح کی بات کرتی ہیں جیسے چھٹی جماعت کی اقراءکہتی ہے " میری سہیلی حفضہ غوری ٹاﺅن کے ایک نجی اسکول میں پڑھتی ہے اور وہ میرا کلاس روم ایک راہداری میں ہونے پر بہت مذاق اڑاتی ہے"۔
ثوبیہ کی استاد نے نام چھپانے کی درخواست کرتے ہوئے بتایا " ہمارے اسکول کو ایک ' ماڈل' اسکول کہا جاتا ہے مگر ہمارے پاس یہاں بیٹھنے کے لیے ایک بینچ تک نہیں"۔
اگرچہ یہ اسکول وفاقی وزارت تعلیم اور وزارت کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈویلپمنٹ ڈویژن (سی اے ڈی ڈی) سے دور نہیں مگر بیوروکریٹس نے یہاں کی طالبات کی مشکلات کو مکمل طور پر نظرانداز کررکھا ہے۔
390 دیگر اسکولوں کے ساتھ آئی ایم سی جی کو بھی 2010 میں ' ماڈل' اسکول کا درجہ اس دور کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی ہدایات پر دیا گیا تھا۔
ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام چھپانے کی شرط پر بتایا " وزیراعظم کی ہدایات پر ہم نے تمام وفاقی اسکولوں کی حیثیت تبدیل کردی تھی مگر وہ کبھی بھی تعلیمی معیار اور سہولیات کے لحاظ سے پرانے ماڈل اسکولوں کے برابر نہیں پہنچ سکے"۔
آئی ایم سی جی کے پرائمری و مڈل اسکولوں کے اساتذہ نے ڈان کو بتایا کہ ان کی طالبات کھیل تک نہیں سکتیں کیونکہ اس کے لیے بھی یہاں کوئی جگہ نہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان عمارات کی حالت اتنی خستہ ہے کہ یہ کسی بھی وقت منہدم ہوسکتی ہیں تاہم ایسا نظر آتا ہے کہ فیڈرل ڈائریکٹوریٹ ایجوکیشن کے حکام اسکول کے مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔
اس علاقے کے ایک رہائشی محمد فیروز نے بتایا کہ وہ متعدد بار محکمہ تعلیم کو اسکول کی خستہ حالت کی شکایات کرچکا ہے مگر اب تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آسکا۔
اس کا کہنا ہے " کسی کو بھی اسکولوں کی پروا نہیں، اقتدار میں بیٹھے لوگوں کی ترجیحات میں تعلیم شامل نہیں"۔
وفاقی دارالحکومت کے دیہی علاقوں میں قائم اسکولوں کو تو شہری علاقوں کے مقابلے میں زیادہ نظرانداز کیا جاتا ہے، اس وقت دیہی علاقوں میں 257 اسکول کام کررہے ہیں اور اکثریت کو اساتذہ اور سہولیات کی کمی کا سامنا ہے۔
ڈائریکٹوریٹ ایجوکیشن کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق سی اے ڈی ڈی اور ڈائریکٹوریٹ کی توجہ شہری علاقوں کے اسکولوں پر مرکوز ہے۔
دوسری جانب اساتذہ بھی دیہی علاقوں کے اسکولوں میں جانے سے گریز کرتے ہیں۔
ایریا ایجوکیشن آفیسر (اے ای او) عباس علی ماکا نے ڈان کو بتایا کہ کھنہ ڈاک میں بچیوں کے لیے اسکول کی نئی عمارات کی تعمیر اور فرنیچر کی فراہمی کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا " ماضی میں ایک ہی عمارت میں پرائمری اور مڈل اسکول قائم تھا، جہاں فرنیچر بھی موجود تھا تاہم جب داخلے کی شرح میں اضافہ ہوا تومڈل سیکشن کو کرائے کی عمارت میں منتقل کردیا گیا اور اب موجودہ فرنیچر ضروریات کے مطابق پورا نہیں پڑتا"۔
انہوں نے مزید بتایا کہ نئی عمارت کی تعمیر کا معاملہ پائپ لائن میں ہے اور اس حوالے سے پراجیکٹ کا پی سی ون متعلقہ انتظامیہ کی منظوری کا منتظر ہے۔
اور اس وقت تک ثوبیہ اور اقراءجیسی طالبات کو ان قابل رحم حالات میں ہی تعلیمی سلسلہ جاری رکھنا پڑے گا۔