پاکستان

پیٹرول بحران میں کمی کا کوئی امکان نہیں

پیٹرول اور فرنس آئل بحران ختم ہونے کے کوئی آثارنظر نہیں آرہے،وزیراعظم نے بحران حال کرنے کیلیے تمام مصروفیات ترک کردیں

اسلام آباد: ایک ایسے وقت میں جب پیٹرول اور فرنس آئل کا بحران ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے جس کے پیش نظر وزیراعظم نواز شریف نے اپنی تمام سرکاری مصروفیات ترک کرتے ہوئے توجہ اس بحران کے حل کی جانب مبذول کر دی ہے۔

وزیر اعظم کی جانب سے ہفتے کو اہم افسران کی معطلی کے بعد حکومت نے پیٹرولیم سیکٹر کی ذمے داریاں سنبھالنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے اور وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے صورتحال کے حل کے لیے آئل انڈسٹری کے نمائندوں کے ساتھ طویل اجلاس کیا۔

شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں چاروں اہم کمپنیز شیل، پی ایس او، ہیسکول اور ٹوٹل پارکو کے سربراہان کے ساتھ ساتھ چیئرمین اوگرا نے بھی شرکت کی۔

باخبر ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں ہنگامی اقدامات کا جائزہ لیا گیا جو وزیر اعظم کو پیش کیے جائیں گے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وزارت خزانہ پیٹرول اور فرنس آئل کی درآمد کے لیے فنڈ کی دستیابی ظاہر کرے۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت نے نیلامی کے بغیر فوری طور پر خریداری کے لیے دبئی میں مقیم کچھ ٹریڈنگ کمپنیوں سے رابطہ کیا ہے جن میں سے کچھ چینی ہیں۔ ذرائع نے کہا کہ 580 ارب روہے سے متجاوز رقم کی ریکوری کی غرض سے وزارت خزانہ نے وزارت پانی اور بجلی پر دباؤ بڑھانے کے لیے فنڈز ادا نہیں کیے نتیجتاً پاکستان نیشنل شپنگ کارپورشن کی جانب سے معاملات تعطل کا شکار ہوئے اور بحران نے جنم لیا۔

ایڈیشنل سیکریٹری ارشد مرزا سیکریٹری پیٹرولیم کا اضافیہ عہدہ سونپ دیا گیا ہے جبکہ پی ایس او کے بورڈ آف مینجمنٹ کے رکن اور گورنمنٹ ہولڈنگ لمیٹیڈ کے چیف ایگزیکٹو 67 سالہ شاہد اسلم کو پی ایس او کا قائم مقام منیجنگ ڈائریکٹر بنا دیا گیا ہے، وہ وزیر پیٹرولیم کے قریبی دوستوں میں بھی شمار ہوتے ہیں۔

وزارت پیٹرولیم کے ڈائریکٹر عبدالجبار میمن کو ڈائریکٹر جنرل آئل کا اضافہ عہدہ سونپ دیا گیا ہے۔

سرکاری بیان کے مطابق وزیر اعظم عوام کو اس بحران سے نجات دلانے کے لیے پیر کا پورا دن فیول مینجمنٹ کے لیے صرف کریں گے، انہوں نے فیول کی کمی کا انتہائی سختی سے نوٹس لے لیا ہے اور اہم فیصلے کرنے کے خواہاں ہیں تاکہ اس بحران کے ذمے داروں سے جواب طلبی کی جائے اور طلب اور رسد کے درمیان فرق کو ختم کیا جا سکے۔

حکام کے مطابق 2014 کے آخری تین ماہ اور جنوری کے ابتدائی 15 دنوں کے دوران میں سات لاکھ 97 ہزار ٹن تیل درآمد کیا گیا جو گزشتہ سال درآمد کیے جانے والے تیل سے تھوڑوا زیادہ ہے، سال گزشتہ سات لاکھ 78 ہزار 975 ٹن پیٹرول درآمد کیا گیا۔

پی ایس او نے گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال نسبتاً کم مقدار میں پیٹرول درآمد کیا گیا کیونکہ وسائل کی عدم دستیابی کے سبب ادارہ اکتوبر سے دسمبر 2014 کے درمیان تین ماہ میں 26 بار ڈیفالٹ ہوا۔

پی ایس او نے اکتور 2013 میں درآمد کیے گئے ایک لاکھ 64 ہزار 410 ٹن پیٹرول کی نسبت اکتوبر 2014 میں ایک لاکھ ایک ہزار ٹن پیٹرول درآمد کیا، نجی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے گزشتہ سال اکتوبر میں 38ہزار ٹن پیٹرول درآمد کیا جبکہ اس عرصے میں 2013 میں انہوں نے تیل درآمد نہیں کیا تھا۔

نومبر میں پی ایس او نے 2 لاکھ 2 ہزار 200 ٹن پیٹرول درآمد کیا جہاں نومبر 2013 میں دو لاکھ 13 ہزار ٹن پیٹرول درآمد کیا گیا۔

دسمبر میں ایک لاکھ 52 ہزار ٹن پیٹرول درآمد ہوا جبکہ 2013 میں اسی عرصے کے دوران ایک لاکھ 66 ہزار ٹن پیٹرول درآمد کیا گیا۔

جنوری کے ابتدائی 15 دنوں کے دوران پی ایس او نے ایک لاکھ 2 ہزار 700 ٹن درآمد کیا جبکہ سال پورے ماہ جنوری میں دو لاکھ چار ہزار 566 ٹن پیٹرول درآمد ہوا۔

ستم ظریفی یہ کہ مقامی ریفائنریز سالانہ بنیادوں پر 13 سے 14 لاکھ ٹن سے زیادہ پیٹرول کی پیداوار نیہں کرتیں لیکن ملک میں دو وہیلر گاڑیوں کی بڑھتی تعداد، لوڈ شیڈنگ کے باعث جنریٹر استعمال اور سی این جی کی کمی کے سبب پیٹرول کی طلب میں پہلے نسبت اضافہ ہوا۔

مالی سال 14-2013 میں 25 لاکھ ٹن پیٹرول درآمد کیا گیا۔

پیٹرول کی یومیہ اوسط فروخت 11 سے 12 ہزار ٹن کے درمیان ہوتی ہے لیکن جنویر کے پہلے 15 دنوں میں یہ طلب 15 ہزار ٹن تک پہنچ چکی ہے، پی ایس او نے رواں ماہ 50 ہزار ٹن کے چار کارگو درآمد کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔

وزیر اعظم کو بتایا جائے گا کہ پی ایس او کی درآمدات پی این ایس سی کی وجہ سے متاثر ہوئیں، دونوں ادروں میں معاہدے کے مطابق ہر سال دسمبر میں شپمنٹ کے ریٹ کا ازسرنو تعین کیا جاتا ہے جس کا عمل درآمد یکم جنوری سے ہوتا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے دائر مقدمات اور دیگر مسائل کے سبب ریٹ کا دوباری تعین نہیں کیا جا سکا اور نیشنل شپنگ کارپوریشن کی جانب سے پی ایس او کو مبینہ طور پر ویسلز کی دستیابی تعطل کا شکار ہوئی۔