حکومت نے اتحادیوں کو نظر انداز کیا، مولانا فضل
سکھر: جمعیت علمائے اسلام - ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے انکشاف کیا ہے کہ ایک طرف حکومتی نمائندوں کی ٹیم ان کی پارٹی سےچیمبر میں مذاکرات کر رہی تھی تو دوسری جانب قومی اسمبلی میں آئین کے اندر 21 ویں ترمیم پر ووٹنگ کا عمل جاری تھا۔
ہفتہ کو یہاں مدرسہ مظہر العلوم حمادیہ میں صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ حکومت نے آئینی ترمیم کے معاملے پر اپوزیشن سے مذاکرات کیے لیکن اتحادیوں کو نظر انداز کر دیا ۔
انہوں نے کہا کہ 24 دسمبر کو کل پارلیمانی پارٹیوں کی کانفرنس میں فوجی عدالتیں قائم کرنے کا ذکر نہیں ہوا لیکن حکومت نے آدھی رات کو یہ فیصلہ کیا 'اور ہم سب اس پر متفق' ہو گئے۔
تاہم، چار جنوری کے اجلاس میں فوجی عدالتیں قائم کرنے کا متفقہ فیصلہ کیا گیا۔
مولانا فضل نے بتایا کہ حکومت نے ان کی پارٹی کو آئین اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کا مسودہ سے بے خبر رکھا۔
'ہم نے آرمی ایکٹ میں ترمیم پر اعتراض نہیں کیا تھا تاہم ہمارا اصرار تھا کہ قانون کے تحت فیصلہ سازی کی جائے'
ان کا کہنا تھا کہ ترمیم کو آئینی تحفظ دینے کے دوران حکومت نے اس میں کچھ چیزیں مثلا مدرسے، مذہب اور فرقہ واریت وغیرہ کو شامل کر لیا ۔'ہم اس کے خلاف تھے کیونکہ دہشت گردی کو مذہب، فرقہ یا قومیت سے نہیں جوڑا جا سکتا'۔
انہوں نے کہا کہ جے یو آئی -ف کے ارکان نے ووٹنگ والے دن ملاقات میں مسودہ دیکھا اور اس میں مبینہ امتیاز پر اعتراض اٹھائے تھے۔