پاکستان

ایک ماہ میں 20 قیدیوں کو پھانسی

سانحہ پشاور کےبعدسزائےموت پرعملدرآمد پرعائد غیراعلانیہ پابندی ختم کی گئی،19دسمبر2014 سے پھانسیاں دینے کاسلسلہ شروع ہوا
|

اسلام آباد: سانحہ پشاور کے بعد سزائے موت پر عملدرآمد پر غیر اعلانیہ پابندی کے خاتمے پر اب تک 20 مجرموں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔

پہلی پھانسی 19 دسمبر 2014 کو فیصل آباد کی ڈسٹرکٹ جیل میں دو مجرموں عقیل احمد عرف ڈاکٹر عثمان اور ارشد مہربان کو دی گئی۔

دونوں مجرموں کو سابق صدر پرویز مشرف پر حملے کے الزام میں پھندے پر لٹکایا گیا۔

21 دسمبر 2014 کو مشرف حملہ کیس کے مزید 4 مجرموں غلام سرور بھٹی، راشد محمود قریشی، زبیر احمد اور ایک روسی باشندے اخلاص کو فیصل آباد کی ڈسٹرکٹ جیل میں تختہ دار پر لٹکایا گیا۔

31 دسمبر 2014 کو مجرم نیاز محمد کو پشاور کی سینٹرل جیل میں پھانسی دی گئی۔

مجرم پر دسمبر 2003 میں راولپنڈی کے جھنڈا پل پر پرویز مشرف پر حملے کا الزام ثابت ہوا تھا۔

جھنڈا پل پر حملے میں 14 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ اس وقت کے فوجی سربراہ مملکت پرویز مشرف محفوظ رہے تھے۔

2015 میں پہلی پھانسی 7 جنوری کو سینٹرل جیل ملتان میں کالعدم جماعت کے دو دہشت گردوں احمد علی عرف شیش ناگ اور غلام شبیر عرف فوجی عرف ڈاکٹر کو دی گئی۔

9 جنوری 2015 کو پاک فضائیہ کے سابق ٹیکنیشن خالد محمود کو مشرف حملہ کیس میں تختہ دار پر لٹکایا گیا۔

13جنوری کو فیصل آباد میں مجرم نوازش اور مشتاق کو مشرف حملہ کیس میں سزائے موت دی گئی۔

اسی روز سینٹرل جیل سکھر میں شاہد حنیف، طلحہ اور خلیل کو وزارت دفاع کے ڈائریکٹر کو قتل کرنے پر کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔

13 جنوری کو ہی اڈیالہ جیل میں امریکی قونصل خانے پر حملے کے مجرم ذوالفقار علی کو پھانسی ہوئی جبکہ کراچی میں وکیل کے قاتل بہرام خان کو تختہ دار پرلٹکایا گیا۔

15 جنوری کو پولیس افسر اور اسکے بیٹے کے قاتل محمد سعید کو کراچی سینٹرل جیل جبکہ پولیس اہلکار کے قاتل مجرم زاہد حسین عرف زاہدو کو لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں پھانسی ہوئی۔

17 جنوری کو اکرام الحق کی سزائے موت پر عملدر آمد کیا گیا۔

اکرام الحق نے 2001 میں ایک شخص کو قتل کیا تھا۔