قصہ فاطمہ جناح کی تدفین کا
محترمہ فاطمہ جناح بانی پاکستان محمد علی جناح کی نہ صرف خیال رکھنے والی مشفق بہن بھی تھیں بلکہ وہ جناح صاحب کی سیاسی شریک کار بھی تھیں۔ جناح صاحب کی وفات کے بعد لوگ انہیں اسی قدر منزلت سے دیکھتے تھے جس طرح جناح صاحب کو۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جناح صاحب کی وفات کے بعد انہیں سیاست سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔
حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کی حکومت اور انتظامیہ کسی صورت بھی نہیں چاہتی تھی کہ فاطمہ جناح آزادی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرسکیں۔ اس کوشش میں وہ اس حد تک آگے بڑھ گئے تھے کہ ریڈیو پاکستان سے ان کی تقریر کے دوران کچھ مواقع پر نشریات روک دی گئیں۔ قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب شہاب نامہ کے صفحہ نمبر 432 مطبوعہ جنوری 1986 باب چہارم میں لکھتے ہیں کہ:
قائد اعظم کی وفات کے بعد محترمہ مِس فاطمہ جناح اور حکومت کے درمیان سرد مہری کا غبار چھایا، اور قائد کی دو برسیاں آئیں اور گزر گئیں۔ دونوں بار مِس جناح نے برسی کے موقع پر قوم سے خطاب کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کی شرط یہ تھی کہ براڈ کاسٹ سے پہلے وہ اپنی تقریر کا متن کسی کو نہیں دکھائیں گی، جبکہ حکومت شرط ماننے پر آمادہ نہیں تھی۔ غالباً اسے خوف تھا کہ نہ جانے مِس جناح اپنی تقریر میں حکومت پر کیا کچھ تنقید کر جائیں گی۔
آخر خدا خدا کر کے قائد اعظم کی تیسری برسی پر یہ طے پایا کہ محترمہ فاطمہ جناح اپنی تقریر پہلے سے سنسر کروائے بغیر ریڈیو سے براہ راست نشر کرسکتی ہیں۔ تقریر نشر ہورہی تھی کہ ایک مقام پر پہنچ کر اچانک ٹرانسمیشن بند ہوگئی۔ کچھ لمحے ٹرانسمیشن بند رہی، اس کے بعد خود بہ خود جاری ہوگئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ مِس جناح کی تقریر میں کچھ فقرے ایسے تھے جن میں حکومت پر کچھ تنقید تھی۔ وہ تو بدستور ان فقروں کو مائک پر پڑھتی گئیں، لیکن ٹرانسمیشن بند ہوجانے کی وجہ سے وہ فقرے براڈ کاسٹ نہ ہوسکے۔
اس بات پر بڑا شور شرابا ہوا۔ اخباروں میں بہت سے احتجاجی بیانات بھی آئے۔ اگرچہ ریڈیو پاکستان کا مؤقف یہی تھا کہ ٹرانسمیشن میں رکاوٹ کی وجہ اچانک بجلی فیل ہونا تھی، لیکن کوئی اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہ تھا۔ سب کا یہی خیال تھا کہ مس جناح کی تقریر میں ضرور کوئی ایسی بات تھی جسے حذف کرنے کے لیے یہ سارا ڈھونگ رچایا گیا ہے۔ اس ایک واقعے نے حکومت پر اعتماد کو جتنی ٹھیس پہنچائی اتنا نقصان مس فاطمہ جناح کے چند تنقیدی جملوں نے نہیں پہنچایا تھا۔
اب آئیے آگے کی طرف چلتے ہیں۔7 اکتوبر 1958ء کو ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔ کمانڈر انچیف اور خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان کو مارشل لاء کا ناظم مقرر کر دیا گیا۔ حکمران اسکندر مرزا نے یہ سب اس لیے کیا تھا کہ وہ ملک کے حکمران ہوں گے۔ لیکن 24 اکتوبر 1958 کو ایوب خان نے اسکندر مرزا کے تمام اختیارات حاصل کر لیے اور ملک میں فوجی حکومت قائم کر دی۔
ان کے کچھ حاشیہ بردار انہیں مشورہ دے رہے تھے کہ وہ تاحیات صدر بن جائیں۔ حکمران کنونشن مسلم لیگ کی جانب سے صدر ایوب کو صدارتی امیدوار نامزد کیا گیا۔ محترمہ ابتداء میں اس نامزدگی پر آمادہ نہ تھیں لیکن حِزب مخالف کی سیاسی پارٹیوں کے اصرار پر انہوں نے ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخاب لڑنے کی حامی بھرلی۔
2 جنوری 1965ء کو انتخابات ہوئے۔ حزب مخالف کے سیاستدانوں کو اس بات کا مکمل یقین تھا کہ محترمہ کامیاب ہوں گی، لیکن الیکشن کمیشن کے مطابق صدر ایوب کامیاب قرار دیے گئے۔ غالباً حکومت اور محترمہ مِس فاطمہ جناح کے درمیان انہی کشیدگیوں کی وجہ سے انتقال کے بعد مزارِ قائد کے احاطے میں دفن کیے جانے کی ان کی خواہش کے باوجود کوشش یہ ہوتی رہی کہ انہیں کراچی کے قدیم میوہ شاہ قبرستان میں دفن کیا جائے۔
اس حوالے سے آغا اشرف اپنی کتاب ”مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح“ مطبوعہ بار اوّل 2000 کے صفحہ نمبر 184 پر لکھتے ہیں: 'محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی زندگی میں یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ مرنے کے بعد انہیں قائد اعظم کے پاس دفن کیا جائے۔ اب محترمہ فاطمہ جناح کی وفات کے بعد یہ مسئلہ پیش آیا کہ انہیں کس جگہ دفن کیا جائے۔ بقول مرزا ابو الحسن اصفہانی صاحب اس وقت کی حکومت محترمہ کو میوہ شاہ قبرستان میں دفنانا چاہتی تھی (ایم اے ایچ اصفہانی انٹرویو 14 جنوری 1976 کراچی) جس کی مخالفت کی گئی اور کمشنر کراچی کو متنبہ کیا گیا کہ اگر محترمہ فاطمہ جناح کو قائد اعظم کے مزار کے قریب دفن نہ کیا گیا تو بلوہ ہو جائے گا۔