62 افراد کے جھلسنے کا ذمہ دار کون؟
اس ملک میں بہت سارے لوگوں کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں۔
بہت ساری ایسی اموات ہوتی ہیں، جن سے بچا جاسکتا ہے۔ بہت ساری اموات ایسی ہوتی ہیں، جن کے لیے کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاتا۔
نہیں یہ ناقص سکیورٹی یا ڈاکٹروں کی غفلت کی وجہ سے نہیں ہیں۔
نہ ہی یہ اسٹریٹ کرائم یا غیرت کے نام پر قتل ہیں۔
میں ہماری سڑکوں پر ہونے والے واقعات کی بات کر رہی ہوں، جن کے بارے میں لگتا ہے کہ کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔
پڑھیے: 'ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی گناہِ کبیرہ'
شکارپور کے ایک پیٹرول پمپ کا ملازم سندھ پولیس میں ملازمت کے لیے انٹرویو کے سلسلے میں کراچی آیا تھا۔ بس میں گھر واپس جاتے ہوئے وہ صرف یہ سوچ رہا ہوگا کہ آیا اسے نوکری ملے گی یا نہیں۔ اور جب تصادم ہوا ہوگا، تو اس وقت وہ صرف انٹرویو میں اپنی کارکردگی کے بارے میں سوچ رہا ہوگا۔
لیکن اس کو یہ معلوم نہیں تھا کہ نوکری نہ ملنے سے بھی زیادہ بری قسمت اس کے انتظار میں ہے۔
اس کے دوست کے مطابق سلیم اللہ ہفتے کی رات نیشنل ہائی وے پر آئل ٹینکر سے ٹکرا جانے والی بس کے بدقسمت مسافروں میں سے تھا۔ اس رات 62 لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ آگ نے ان کے جسموں کو ناقابلِ شناخت بنا دیا تھا۔
9 لوگوں پر مشتمل ایک خاندان مکمل طور پر ختم ہوگیا۔
ایک عورت اپنے چھ بچوں کے ساتھ اس دنیا سے چلی گئی۔
اپنے پیاروں کی موت کو قبول کرنا بہت مشکل مرحلہ ہے۔ لیکن ان کی جلی ہوئی باقیات کو شناخت کرنا شاید اس سے بھی کہیں زیادہ مشکل ہوگا۔
لیکن اس سے بھی زیادہ مشکل اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا، کہ اس روڈ حادثے، جس کو روکا جاسکتا تھا، کے لیے کوئی بھی ذمہ دار قرار نہیں پائے گا۔ پھر کچھ دن بعد اسے اللہ کی مرضی قرار دے کر بھلا دیا جائے گا۔
دہشتگردوں سے لڑنا اور ان کے ہاتھوں ہونے والی اموات کو روکنا شاید حکومت کے لیے بہت مشکل کام ہو، لیکن ٹرانسپورٹ قوانین کا نفاذ اور ان پر عملدرآمد اتنا مشکل نہیں ہونا چاہیے۔
مزید پڑھیے: گرین سگنل
کیا دہشتگردی سے ہونے والی اموات اس ملک کے لیے بہت زیادہ نہیں ہیں جو ہم دوسری اموات کے راستے بھی کھولے ہوئے ہیں؟ کیا دوسری اموات سے بچا نہیں جاسکتا، خاص طور پر وہ جو سڑکوں پر ہوتی ہیں؟
پاکستان کی زیادہ تر سڑکیں نہایت خراب حالت میں ہیں، اور شاید ہی ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کروایا جاتا ہے۔
سڑکوں پر دوڑتی بھاگتی بسیں اپنی گنجائش سے کہیں زیادہ بھری ہوئی ہوتی ہیں، جبکہ آدھا درجن مسافر مختلف جگہوں سے لٹک رہے ہوتے ہیں۔
ڈرائیور ہمیشہ وقت کو شکست دینے کی چاہ میں دوسرے ڈرائیوروں سے ریس لگاتے ہیں، یا صرف وقت بچانے اور زیادہ پیسنجر اٹھانے کے لیے بس غلط سمت میں بھی لے جاتے ہیں۔
اور چائے پانی کی تلاش میں کانسٹیبل کے علاوہ کوئی انہیں نہیں روکتا۔
ملک کے صحت اور تعلیمی نظام کی طرح ٹرانسپورٹ نظام کو بھی مکمل طور پر تجدید کی ضرورت ہے۔
اس کام میں محفوظ سڑکوں کی تعمیر، ہائی ویز پر ایمرجنسی ریسکیو سسٹمز بنانا، اور سب سے اہم بنیادی ٹریفک قوانین کا نفاذ اور خلاف ورزی پر ڈرائیوروں پر بھاری جرمانے عائد کرنا شامل ہیں۔
تیل لے جا رہی بھاری گاڑیوں کے ڈرائیوروں کو خصوصی ہدایات اور ٹریننگ دی جانی چاہیے، جبکہ مسافر بسوں کی رفتار چیک کرنے کے لیے بھی موثر سسٹم لانے کی ضرورت ہے۔
لیکن ایک ایسا محکمہ جو تمام واقعات کو مٹی کی طرح قالین کے نیچے چھپا دینے کا عادی ہے، اس کے لیے یہ کام بہت زیادہ ہوگا۔
کچھ لمحوں میں 62 لوگوں کا جھلس کر مر جانا کوئی چھوٹا موٹا حادثہ نہیں، بہت بڑا سانحہ ہے، اور یہ واقعات اکثر ہوتے ہیں۔ بھلے ہی ان کی موت گولی کی وجہ سے نہیں ہوئی، لیکن ان لوگوں کی موت کی وجہ کسی کی غفلت اور اپنی ذمہ داری نہ نبھانا ہے۔
قدرتی عوامل جیسے کہ لینڈ سلائیڈ یا بارش سے تو حادثات ہوسکتے ہیں، لیکن سڑک پر ہونے والا کسی بھی دوسری طرح کا حادثہ کسی نہ کسی کی غلطی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
تو سڑک پر 62 لوگوں کا جھلس جانا کس کی غلطی ہے؟