لائف اسٹائل

پی ٹی وی: سنہرے ماضی کی یادیں

ابتدائی دنوں میں ناظرین اپنے ٹی وی سیٹس کے سامنے چپکے رہتے تھے اور ہر نشر ہونے والا پروگرام دیکھنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔

پی ٹی وی: سنہرے ماضی کی یادیں



پاکستان 26 نومبر 1964 کو لاہور میں ایک چھوٹے سے ٹی وی اسٹیشن کے قیام کے بعد ٹیلیویژن نشریات کے دور میں داخل ہوا جس کے لیے تیکنیکی معاونت اور تربیت جاپان کی این ای سی کمپنی نے فراہم کی۔ شروع میں یہ نشریات بلیک اینڈ وائٹ تھی جس کو 25 دسمبر 1976 کو کلر کردیا گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے پی ٹی وی لاہور سینٹر کی نئی عمارت کا 1972 میں افتتاح کیا، اس تصویر میں نیچے دیئے گئے دستخط بے نظیر بھٹو کے ہیں

پی ٹی وی پر سب سے پہلے قرآن مجید کی تلاوت قاری غلام رسول اور پہلے میزبان طارق اور کنول نصیر تھے۔ 1967 میں پی ٹی وی کے دو مزید مراکز کراچی اور اسلام آباد میں کھلے۔

احمد رشید سنگیت بہار نامی پروگرام میں

ابتدائی دنوں میں ناظرین اپنے ٹی وی سیٹس کے سامنے چپکے رہتے تھے اور ہر نشر ہونے والا پروگرام دیکھنا اپنا فرض سمجھتے تھے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ڈرامہ پروڈکشن پر زیادہ توجہ دی گئی اور اس کی مقبولیت دیگر مراکز تک پھیل گئی۔ پی ٹی وی نے ایسے معیاری پروگرامز نشر کیے جنھوں نے دیکھنے والوں پر پائدار اثر چھوڑا۔

معروف گلوکارہ آئرین پروین پی ٹی وی کے ایک بلیک اینڈ وائٹ شو میں

اس زمانے میں پی ٹی وی کے تمام پانچوں مراکز یعنی لاہور، کراچی، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ کے درمیان صحت مند مسابقتی ماحول موجود تھا۔ اگر لاہور نے اندھیرا اجالا (1985) کیا تو کراچی کا ان کہی (1982) بھی کسی سے کم نہیں تھا اور کوئٹہ نے دھواں (1995) نشر کرکے بازی مار لی تھی۔ اسلام آباد بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا اور گیسٹ ہاﺅس (90 کی دہائی کی مقبول سیریز) اور رﺅف خالد کے مقبول ڈراموں لاگ اور انگار وادی کو نشر کیا۔

سبحانی بایونس پی ٹی وی کراچی سے نشر ہونے والے ڈرامے مرزا غالب بندر روڈ پر کے ایک منظر میں

آدھی جنگ جیتنا

چند سال قبل ٹرین پر دہلی سے بنگلور جاتے ہوئے ہماری ملاقات چندی گڑھ کے ایک سردار جی سے ہوئی۔ ہم اس وقت حیران رہ گئے جب سردار جی نے پی ٹی وی ڈراموں کی تعریف کرنا شروع کردی، ان کا کہنا تھا کہ جب وارث، اندھیرا اجالا، دھوپ کنارے اور دیگر مقبول ڈرامہ سیریلز پی ٹی وی پر نشر ہوتے تھے تو وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ انہیں دیکھنے کے لیے چندی گڑھ سے امرتسر کا رخ کرتا تھا (یہ لگ بھگ چار گھنٹے کا سفر ہے)۔ انہوں نے آنکھیں چمکاتے ہوئے مزید کہا " آپ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ اس وقت تو پی ٹی وی کے اشہتارات بھی ہم پر سحر طاری کردیتے تھے"۔

لیجنڈ گلوکارہ روشن آراء بیگم

جب میں کویت میں مقیم تھا جہاں میں ایک وڈیو شاپ میں سیلزمین تھا، اس وقت میں ہندوستانی صارفین پر زور دیتا تھا کہ وہ ڈرامہ سیریلز کی ریکارڈنگ مانگنے کی بجائے پاکستانی فلمیں جیسے آئینہ، دل لگی، دوستی وغیرہ دیکھیں ۔

ساٹھ کی دہائی کے ڈرامے خدا کی بستی کا ایک منظر

ماضی کا عکس

پی ٹی وی لاہور سینٹر میں فوٹو آرکائیو انتہائی اچھے طریقے سے محفوظ کی گئی ہے اور اس کا مناسب خیال رکھا جاتا ہے تاہم بیشتر ریکارڈنگ و شوٹنگ اسٹوڈیوز خالی نظر آتے ہیں۔

پی ٹی وی پر 1982 میں نشر ہونے والے ڈیوک آف اینڈیمبرا سے انٹرویو کی ایک تصویر

لاہور سینٹر کے ایک آرٹ و کلچر پروڈیوسر محسن جعفر بتاتے ہیں " لگ بھگ نوے فیصد ڈرامہ پروڈکشن اب کراچی منتقل ہوچکی ہیں اور صرف دس فیصد شوٹنگ ہی لاہور سینٹر میں ہوتی ہے جو کہ کبھی اس طرح کی سرگرمیوں کا اہم ترین مرکز مانا جاتا تھا"۔

نور جہاں پی ٹی وی لاہور مرکز کے مقبول میوزک پروگرام ترنم کے پہلے شو میں

پی ٹی وی نے گزشتہ برس اپنے قیام کی گولڈن جوبلی منائی جس دوران کچھ معروف ٹی وی شخصیات نے اس ادارے کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

مسرت نذیر اپنا مقبول ترین نغمہ لونگ گواجہ گانے میں مصروف

(طارق عزیز (میزبان

"آہ آپ نے کیا زمانہ یاد کروا دیا، میں اس وقت ریڈیو پاکستان میں بطور میزبان و ڈرامہ آرٹسٹ کام کررہا تھا جب پی ٹی وی حکام نے مجھے دیگر متعدد افراد کے ساتھ اپنے ادارے میں بلایا۔ وہ واقعی ایک سنہری عہد تھا، پی ٹی وی پر پہلا اعلان کرنا بالکل ایسا ہی تھا جیسے چاند پر قدم رکھنا۔ مجھے تو دیگر افراد کو بھی تربیت دینے کا کہا گیا تھا اور میں نے چالیس سے 50 ڈراموں میں کام کیا جو اب ہمیشہ کے لیے گم ہوچکے ہیں کیونکہ اس زمانے میں کوئی ریکارڈنگ سسٹم موجود نہیں تھا"۔

پی ٹی وی کی خصوصی انتخابی ٹرانسمیشن کا ایک منظر

طارق عزیز اپنی مقبولیت کا کریڈٹ پی ٹی وی کو دیتے ہیں " میں ٹیلیویژن پر سب سے زیادہ نظر آنے کے حوالے سے ممکنہ طور پر ورلڈ ریکارڈ کا حامل ہوں"۔

پی ٹی وی لاہور سینٹر کے پہلے اسٹوڈیو کی عمارت

(فردوس جمال (اداکار

" پی ٹی وی کا آغاز زبردست انداز سے ہوا اور اس نے بہت جلد ہی ناظرین کی بڑی تعداد کو اپنی جانب کھینچ لیا، میرے خیال میں نجی چینیلز کے سامنے آنے سے والے پی ٹی وی کی جانب سے تمام شعبوں میں معیاری کام پیش کیا جاتا تھا۔ ہمارے پاس ممتاز مصنفین جیسے حسینہ معین، فاطمہ ثریا بجیا، اشفاق احمد، منو بھائی، امجد اسلام امجد، رﺅف خالد وغیرہ تھے اور باکمال پروڈیوسرز جیسے نثار حین، یاور حیات اور اداکار جیسے عابد علی، عظمیٰ گیلانی، مرینہ خان، راحت کاظمی، عرفان کھوسٹ، محمد قوی خان اور متعدد تمام مراکز پر کام کررہے تھے"۔

فیض احمد فیض مقبول پروگرام یادش بخیر میں انٹرویو دیتے ہوئے

انہوں نے کہا کہ ہم لوگ نظریہ پاکستان کے محافظ تھے جو اس کے ثقافتی، موسیقی اور روایات کے پہلوئوں کی نگہبانی کررہے تھے۔ ہم نہ صرف اپنے ناظرین کو تفریح فراہم کررہے تھے بلکہ انہیں تعلیم بھی دے رہے تھے۔ ہمیں اپنے مشن کے دوران کھانے پینے کا ہوش نہیں رہتا تھا، اس وقت زیادہ پیسہ نہیں ملتا تھا مگر اس جذبے نے ٹیلیویژن پروڈکشن میں پاکستان کا نام بنا دیا تھا۔

طارق عزیز نیلام گھر کے پہلے شو میں

انہوں نے مزید کہا " حالات اس وقت زوال کا شکار ہونا شروع ہوئے جب غیر پیشہ ور پروڈیوسرز نے کام شروع کیا جس کے نتیجے میں لوگوں نے انڈین اور دیگر چینیلز کا رخ کرلیا۔ آخر میں اپنی بات ان الفاظ پر ختم کروں گا کہ پی ٹی وی عوامی پراپرٹی ہے اور یہ کسی ایک خاص طبقے سے تعلق نہیں رکھتا"۔

عابد علی اور حمیرا چوہدری پی ٹی وی ڈرامے جھوک سیال میں جس کی ہدایات یاور حیات نے دیں

رفیع خاور المعروف ننھا اور احمد کمال رضوی الف نون کے ایک سین میں

فردوس جمال، محبوب عالم اور اورنگزیب لغاری پی ٹی وی لاہور سینٹر کے بلاک بسٹر ڈرامے وارث میں

منصور سومرو اور شہناز سومرو اسی کی دہائی کے ڈرامے دیواریں میں

جمیل بسمل اور جمیل فخری لاہور مرکز کے ڈرامے اندھیرا اجالے کے ایک سین میں