پاکستانی ٹیم میں کمزور کڑی کون؟
میزبان آسٹریلیا کی ٹیم کے اعلان کے ساتھ ہی عالمی کپ 2015ء کی تمام ٹیموں کے اسکواڈ کی فہرست مکمل ہوگئی ہے۔
پاکستان کی حالیہ کارکردگی کو دیکھیں تو کچھ زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کی جا سکتیں لیکن پھر بھی دستیاب وسائل کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان نے بہت اچھی ٹیم کا انتخاب کیا ہے۔ لیکن ہمیں حقیقت سے قریب تر اندازے لگانے کے لیے دستے میں موجود کھلاڑیوں کے انفرادی اعداد و شمار، حالیہ کارکردگی اور صلاحیتوں کو فرداً فرداً جانچنا پڑے گا تب ہی کوئی تصویر نمایاں ہوگی اور جو عکس ہمارے سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر پاکستان کے آگے بڑھنے کے امکانات کو کوئی ٹھیس پہنچا سکتا ہے تو وہ حتمی دستے میں موجود چند کمزور کڑیاں ہیں۔
ان کڑیوں کی تلاش میں ہماری نظر دو "خانوں" پر جا ٹھہری ہے، بلے بازی میں یونس خان اور گیندبازی میں سہیل خان پر۔
37 سالہ یونس خان کی حالیہ کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ کے ایک بہترین بیٹسمین ہونے کے باوجود ساڑھے 14 سالوں پر محیط ایک روزہ کریئر میں یونس ایک اوسط بلے باز ہی ہیں اور صرف 31.75 کا اوسط یہ بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔ ان کی کارکردگی میں پاکستان کی پرفارمنس سے بھی زیادہ اتار چڑھاؤ دکھائی دیتا ہے، خاص طور پر بڑے ٹورنامنٹس میں۔
گذشتہ عالمی کپ میں کینیا اور سری لنکا کے خلاف دو عمدہ نصف سنچریوں کے بعد ان کی کارکردگی کو آنے والا زوال پاکستان کی شکست کا سبب بنا۔ سیمی فائنل میں جب کریز پر ان کی موجودگی بہت ضروری تھی تب وہ 13 رنز بنا کر پویلین لوٹ آئے اور پاکستان مقابلہ ہار گیا۔ البتہ ایک روزہ دستے میں ان کی جگہ محفوظ رہی یہاں تک کہ مارچ 2013ء میں دورۂ جنوبی افریقہ میں ناکامی نے ان کے کریئر کو ضرب لگائی۔ اس کے بعد سے اب تک تقریباً دو سالوں سے پاکستان کے ایک روزہ دستے میں یونس کی جگہ یقینی نہیں۔
دورۂ جنوبی افریقہ کے ڈیڑھ سال بعد انہیں اگست 2014ء میں سری لنکا کے خلاف سیریز میں شامل کیا گیا جہاں وہ محض ایک میچ کھیل پائے اور اس کے بعد ایک مرتبہ پھر اپنی جگہ سے محروم ہوگئے۔ پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف گذشتہ ہوم سیریز میں انہیں شامل نہیں کیا اور جب ٹیم 3-0 کی بدترین شکست سے دوچار ہوئی تو یونس خان پھٹ پڑے اور بورڈ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
غیض و غضب کو دیکھتے ہوئے نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں 'خان صاحب' کو جگہ دی گئی۔ جہاں انہوں نے ایک مقابلے میں ساڑھے چھ سال بعد اپنی پہلی ون ڈے سنچری بنائی لیکن اس کے باوجود بحیثیت مجموعی انہیں اور قومی ٹیم کو بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
اب عالمی کپ 2015ء سے قبل یونس خان کا واحد 'پلس پوائنٹ' شاید تجربہ ہے، لیکن آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی سرزمین پر ان کی کارکردگی بھی کھلی کتاب کی طرح موجود ہے۔ آسٹریلیا میں یونس خان نے کل 9 مقابلے کھیلے ہیں جن میں ان کا اوسط صرف 18.37 ہے جبکہ نیوزی لینڈ میں 6 ون ڈے میچز میں یونس نے صرف 23 کے اوسط کے ساتھ 115 رنز بنائے ہیں۔
بلاشبہ یونس ٹیسٹ کے بہترین کھلاڑی ہیں اور اس عمر میں بھی پاکستان کے پاس کوئی ایسا متبادل بلے باز موجود نہیں جو "خان" کی جگہ لے سکے لیکن ویسٹ انڈیز کے شیونرائن چندرپال کی طرح ان کی بھی ایک روزہ دستے میں کوئی جگہ نہیں بنتی جنہوں نے عالمی کپ 2011ء کے بعد سے آج تک کوئی ون ڈے نہیں کھیلا۔ لیکن یونس کی موجودگی، اور کارکردگی نہ دکھانے کے باوجود اصرار، کی وجہ سے نوجوان اور باصلاحیت کھلاڑیوں کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔
ان معمولی اعدادوشمار کے ساتھ یونس خان کو دستے میں برقرار رکھنے کے لیے پاکستان نے 35 ایک روزہ مقابلوں میں 45 سے زیادہ کا اوسط رکھنے والے فواد عالم کو باہر بٹھا رکھا ہے۔ گذشتہ سال 8 ون ڈے میچز میں 69 کے شاندار اوسط کے ساتھ بیٹنگ کرنے والے فواد نے 2014ء میں ایک سنچری کے علاوہ دو نصف سنچریاں بھی بنائیں لیکن صرف آسٹریلیا کے خلاف ایک سیریز کی کارکردگی ان کے لیے ناقابل معافی گناہ ثابت ہوئی ہے۔
سال 2014ء میں پاکستان کے کسی ایک روزہ بلے باز کا اوسط 59 سے زیادہ نہیں رہا، وہ بھی سال کے آخر میں پانچ مقابلوں میں حارث سہیل نے بنایا جبکہ عالمی کپ کے لیے دستے میں شامل کیے جانے والے احمد شہزاد 39، عمر اکمل 32، محمد حفیظ 30، صہیب مقصود 29، شاہد آفریدی 27، یونس خان 27 اور کپتان مصباح الحق صرف 23 کے اوسط سے رنز بنا سکے۔ اس کے باوجود یہ تمام بلے باز عالمی کپ کے لیے پاکستان کی بیٹنگ لائن کا حصہ ہیں اور فواد 69 کا اوسط رکھنے کے باوجود باہر۔
گذشتہ سال پاکستان کی سب سے بڑی شراکت داری فواد نے ہی صہیب کے ساتھ مل کر بنائی تھی جب انہوں نے سری لنکا کے خلاف ایک روزہ سیریز میں 147 رنز کی ساجھے داری کے ذریعے پاکستان کو واحد فتح دلائی تھی۔ بلکہ سال بھر میں بننے والی پاکستان کی کل 7 سنچری شراکت داریوں میں سے چار میں فواد عالم شریک رہے پھر بھی یہ سب کچھ انہیں عالمی کپ میں کھیلنے کا اہل نہیں بنا سکا ہے۔
پھر پاکستان کے ٹاپ آرڈر کی حالت زار اور حالیہ کارکردگی دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے مڈل بلکہ خاص طور پر لوئر مڈل آرڈر میں استحکام کی ضرورت ہے۔ 2013ء میں جب مصباح الحق اپنی بہترین فارم میں تھے، یہ کمی محسوس نہیں ہو رہی تھی لیکن اب جبکہ کپتان "دھن" میں نہیں ہیں، تو یہ کمزوری بہت کھل رہی ہے۔
حارث سہیل کی صورت میں نچلے آرڈر پر بہترین اضافہ ہوا ہے اور اب جبکہ شاہد آفریدی کا بلّا بھی خوب چل رہا ہے تو پاکستان کو چند اچھی شراکت داریاں ملی ہیں لیکن اگر اس مقام پر عمر اکمل کے ساتھ فواد عالم بھی ہوتے تو یہ بہترین سنگت پاکستان کے لیے بہت فائدہ مند ہوتی۔ لیکن اب اگر عالمی کپ میں مصباح کی فارم برقرار رہی، اور یونس بھی توقعات کے برخلاف نہ چل سکے تو تمام تر بوجھ عمر اکمل، صہیب مقصود اور حارث سہیل کے نوجوان کاندھوں پر ہوگا اور کیونکہ تینوں ایک ہی مزاج کے کھلاڑی ہیں اس لیے اننگز کو جمانے والے کھلاڑی کی کمی شدت کے ساتھ محسوس ہوگی۔
بلے بازی کے اس طویل تجزیے کے بعد اب رخ باؤلنگ لائن اپ کی طرف کرتے ہیں۔ سعید اجمل اور محمد حفیظ کی عدم موجودگی کے باوجود یہاں پاکستان کی حالت اتنی خراب نہیں دکھائی دیتی۔ تمام ٹیمیں یہی توقع رکھتی ہیں کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی وکٹیں تیز گیندبازوں کے لیے سازگار ہوں گی اور میزبان آسٹریلیا کے دستے میں محض ایک اسپنر کی موجودگی یہ بات ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس لیے محمد عرفان، جنید خان، وہاب ریاض، احسان عادل اور سہیل خان پر مشتمل دستہ مناسب دکھائی دیتا ہے اور شاہد آفریدی اور یاسر شاہ کی اضافی کمک بھی ان کو سہارا دینے کے لیے تیار ہے۔
لیکن یہاں ایک مسئلہ ہے، جنید خان اگست کے بعد سے اب تک کوئی بین الاقوامی مقابلہ نہیں کھیلے اور اپنی گھٹنے کی تکلیف کی وجہ سے کافی مہینوں سے ٹیم سے باہر ہیں۔ اب وہ مکمل طور پر صحت یاب ہوچکے ہیں اور پینٹ اینگولر کپ میں ایکشن میں بھی دکھائی دے رہے ہیں جبکہ محمد عرفان اور وہاب ریاض کی کہانی بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں البتہ یہ دونوں نیوزی لینڈ کے آخری سیریز میں شریک تھے اور ملی جلی کارکردگی کے ساتھ کسی حد تک بین الاقوامی کرکٹ کے لیے تیار ہیں۔
لیکن تشویش یہ ہے کہ اگر جنید خان کی انجری دوبارہ عود کر آتی ہے یا پاکستان طویل قامت عرفان کو تمام مقابلے کھلانے کا خطرہ مول نہیں لیتا تو کیا اتنا بڑا بوجھ اٹھانے کے لیے احسان عادل اور سہیل خان تیار ہوں گے؟ احسان کو اپنے دو ایک روزہ بین الاقوامی مقابلوں میں سے آخری کھیلے ہوئے ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے جبکہ 30 سہیل خان نے تو ساڑھے تین سالوں سے پاکستان کی نمائندگی نہیں کی۔ ان دونوں کی جگہ، یا کم از کم سہیل خان کے بجائے، بلاول بھٹی اور انور علی کی جوڑی کو موقع دیا جاتا تو زیادہ مناسب تھا۔ دونوں بین الاقوامی کرکٹ کا معقول تجربہ بھی رکھتے ہیں اور آل راؤنڈ آپشن کی حیثیت سے بھی استعمال ہو سکتے ہیں، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
اب مندرجہ بالا زاویے سے دیکھیں تو صاف اندازہ ہوتا ہے کہ اگر پاکستان عالمی کپ کے پہلے یا ناک آؤٹ کے پہلے مقابلے سے باہر ہوا تو اس کا سب سے بڑا سبب مڈل آرڈر میں ایک کمزور کڑی کی موجودگی ہوگی، اس کے بعد دوسری اہم وجہ مایوس کن فیلڈنگ اور تیسری باؤلنگ میں اچھے بیک-اپ باؤلرز کی عدم موجودگی ہوگی۔
بہرحال، پاکستان ہمیشہ سے غیر یقینی کارکردگی دکھاتا آیا ہے اور 1992ء میں تاریخ کی کمزور ترین ٹیم رکھنے کے باوجود عالمی کپ جیتا لیکن 1996ء سے 2007ء تک انتہائی مضبوط دستے بھی پاکستان کو چیمپئن نہ بنا سکے بلکہ ان میں آخری دو عالمی کپ ٹورنامنٹس میں تو "شاہینوں" کی پرواز پہلے ہی مرحلے میں تمام ہوئی۔
البتہ 2011ء میں ایک مرتبہ پھر نسبتاً کمزور دستے کے ساتھ پاکستان حیران کن طور پر سیمی فائنل تک پہنچا لیکن روایتی حریف کے ہاتھوں عالمی کپ میں ایک مرتبہ پھر شکست کھا کر باہر ہوا۔ بہرحال، اس وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستان اگلے مہینے شروع ہونے والے عالمی کپ میں کہاں تک پہنچے گا۔ کوارٹر فائنل تک رسائی تو ممکن دکھائی دیتی ہے لیکن اس سے آگے کے سفر کا کیا ہوگا؟ اس کا محض اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔
فہد کیہر کرکٹ کے فین ہیں اور مشہور کرکٹ ویب سائٹ کرک نامہ کے بانی ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر fkehar@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔