لائف اسٹائل

حمزہ کا اسٹیٹس ہٹایا جانا 'غلطی' تھی : مارک زکر برگ

فیس بک انتظامیہ نے پاکستانی اداکار حمزہ علی عباسی کا وہ اسٹیٹس ہٹا دیا تھا جس میں فرانس حملے کی مذمت کی گئی تھی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کے بانی اور سی ای او مارک زکر برگ نے پاکستانی ماڈل و اداکار حمزہ علی عباسی کے فرانسیسی رسالے چارلی ہیبڈو پر حملے اور اظہارِ رائے کی آزادی کے حوالے سے شیئر کیے گئے فیس بک اسٹیٹس کو ہٹائے جانے کو ایک 'غلطی' قرار دے دیا۔

حمزہ علی عباسی کے اسٹیٹس کوہٹانے کے حوالے سے جب اینجلک منی نامی ایک فیس بک صارف نے زکر برگ سے سوال کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ 'میرا نہیں خیال وہ اسٹیٹس ہٹایا گیا ہے۔ ہماری ٹیم سے غلطی ہوئی ہے۔ جسٹن کیا تم اس معاملے کو دیکھ سکتے ہو'؟

فیس بک پر اپنے دیئے گئے کمنٹ میں مارک نے جسٹن اوسوفسکی کو ٹیگ کیا، جن کی پروفائل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فیس بک کے گلوبل آپریشنز اور میڈیا پارٹنر شپ کے نائب صدر ہیں۔

مارک زکر برگ کے اس کمنٹ کو اب تک 950 سے زائد افراد لائیک کر چکے ہیں۔

یاد رہے کہ پاکستانی ماڈل و اداکار حمزہ علی عباسی کا اتوار کو کہنا تھا کہ فیس بک انتظامیہ نے ان کی پروفائل کو ڈی ایکٹیویٹ کرکے ان کا وہ اسٹیٹس ہٹا دیا ہے جس میں انھوں نے فرانسیسی رسالے چارلی ہیبڈو کے پیرس میں واقع دفتر پر حملے میں ہونے والی ہلاکتوں کی مذمت کی تھی۔

`

`

حمزہ نے ڈیلیٹ کیے گئے اپنے فیس بک اسٹیٹس اور ان نوٹیفکیشنز کے اسکرین شاٹس شیئر کیے جن میں کہا گیا تھا کہ ان کا اسٹیٹس ہٹادیا گیا ہے کیوں کہ اس کے ذریعے فیس بک کے کمیونٹی اسٹینڈرز کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ حمزہ علی عباسی مختلف سماجی، سیاسی، ثقافتی اور مذہبی مسائل و واقعات کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار سوشل میڈیا پر کرتے رہتے ہیں۔

انھوں نے چارلی ہیبڈو پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'جب کوئی حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو میرا خون کھول اٹھتا ہے تاہم اس سے کسی فرد کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ کسی کو قتل کرے'۔

چارلی ہیبڈو نامی رسالے نے 2011 میں پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کے توہین آمیز خاکے اپنے سرورق پر شائع کیے تھے جس کے بعد اس کے دفتر پر فائربموں کے ذریعے حملہ بھی کیا گیا تھا جب کہ رواں ماہ اس میگزین نے داعش کے خلیفہ ابوبکر البغدادی کے حوالے سے ٹوئٹ کی تھی۔

اپنے آفیشل اور فیس بک کی جانب سے تصدیق شدہ فیس بک اکاؤنٹ پر، جس کو فالو کرنے والے افراد کی تعداد 1.6 ملین سے زائد ہے، حمزہ کا کہنا تھا کہ اظہارِ رائے کی آزادی میں تنقید، کسی بات سے اتفاق نہ کرنے یا عقائد اور نظریات کو مسترد کیے جانے کو بھی شامل کیا جانا چاہیے لیکن کسی کی 'توہین' کی اجازت کسی صورت نہیں دینی چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مغرب کو اپنی اظہار رائے کی آزادی کی تعریف کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے، دوسری صورت میں دوبلین سے زائد مسلمان آبادی میں سے 'کوئی بھی اٹھے گا اور ناحق قتل شروع کردے گا'۔

حمزہ نے سوال کرتے ہوئے مزید کہا کہ 'کیا یہ آزادی اظہار رائے ہوگا اگر میں سیاہ فاموں کو نیگرو کہوں یا یہ پھر یہ کہوں کہ ہٹلر ایک مسیحا تھا'؟

خوشی ہے کہ معاملہ مارک تک پہنچا ، حمزہ علی عباسی

دوسری جانب ڈان سے بات کرتے ہوئے حمزہ علی عباسی نے کہا کہ 'میں کافی دیر تک فیس بک پر لاگ ان ہونے کی کوشش کرتا رہا، لیکن وہ میرا پاس ورڈ قبول نہیں کر رہا تھا۔ مجھے لگا یہ ہیک کرلیا گیا ہے تاہم بعد میں مجے فیس بک کی جانب سے ایک ای میل موصول ہوئی جس میں کہا گیا کہ میرا اسٹیٹس ڈیلیٹ کر کے میرا اکاؤنٹ عارضی طور پر بلاک کردیا گیا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں فیس بک پر اکثر اوقات متنازعہ چیزیں شیئر کرتا رہتا ہوں۔ میں اپنی آواز اٹھانے کے حق میں ہوں اور یہ بالکل مزاحیہ لگتا ہے کہ اپنے اظہاررائے کی آزادی سے متعلق قوانین نےانھیں صرف یہی پوسٹ ڈیلیٹ کرنے پر اکسایا'۔

مارک زکر برگ کی جانب سے اس واقعے کو غلطی تسلیم کیے جانے کے بعد حمزہ نے کہا کہ 'انھیں خوشی ہے کہ یہ معاملہ ان تک پہنچا ہے اور اس سے وہ مسئلہ اجاگر ہوا جس کی طرف میں نشاندہی کرنا چاہتا تھا'۔

انٹرنیٹ رائٹس گروپس کی مذمت

حمزہ علی عباسی کے اسٹیٹس کو ہٹائے جانے کے اگلے ہی روز انٹرنیٹ رائٹس گروپوں نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ فیس بک نے ان کا وہ اسٹیٹس ہٹا کر اکاؤنٹ ڈی ایکٹیویٹ کردیا جس میں حمزہ نے مغرب کو اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے اپنی تعریف پر ازسر نو سوچنے کا کہا تھا۔

ڈیجیٹل سیکیورٹی اینڈ پرائیویسی کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'بولو بھی' کی ثنا سلیم نے ڈان کو بتایا کہ 'یہ مضحکہ خیز ہے اور مجھے سمجھ نہیں آتا کہ یہ کیسا دوہرا میعار ہے'۔

ثنا نے سوال کیا کہ فیس بک کے کسی مواد کو ہٹانے کے حوالے سے کیا اسٹینڈرڈ ہے اور یہ کس طرح سے کام کرتا ہے؟ کیا یہ خود کار ہے؟ اگر ہے تو یہ بالکل غلط ہے اور اگر ان کی ٹیم کسی مواد کا جائزہ لیتی ہے تو یہ بھی غلط ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ اب فیس بک، واٹس ایپ اور انسٹا گرام کا بھی مالک ہے۔ اگر یہی پالیسی رہی تو یہ آزادی اظہار ارئے کی 'موت' کے مترادف ہوگا۔

واضح رہے کہ یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب رواں ماہ فرانسیسی جریدے کے دفتر میں دہشت گرد حملے میں 12 افراد کی ہلاکت کے بعد فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے دعویٰ کیا کہ چند سال پہلے 'ایک پاکستانی شدت پسند' نے فیس بک کی جانب سے پیغمبر اسلام حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے متعلق توہین آمیز مواد پر پابندی مسترد کرنے پر انہیں موت کا حقدار ٹھہرانے کی کوشش کی تھی۔

مزید پڑھیں:'پاکستانی انتہا پسند نے مجھے موت کا حقدار ٹھہرانے کی کوشش کی'

نو جنوری کو اپنی ایک پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ان کا سوشل نیٹ ورک 'ہرملک' کے قوانین کی پابندی کرتا ہے مگر وہ یہ بھی کہتے ہیں 'کوئی ایک ملک یا گروپ کسی کو مجبور نہیں کرسکتا کہ دنیا بھر میں لوگوں کی شیئرنگ کو روک سکے'۔